پی ڈی ایم کے 13دسمبر کے لاہور میں جلسے میں کارکنوں کی تعداد پر جہاں حکومت اور اپوزیشن دعوئوں میں مصروف ہیں وہاں مریم نواز جلسہ میں شرکاء کی کم تعداد سے مایوس ہو کر اپنے انتظامی عہدے داروں سے ناراض اور سستی اور عدم دلچسپی دکھانے والے پارٹی عہدیداران کے خلاف ایکشن لینے کا سعد رفیق سے وعدہ بھی کر چکی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز عمران حکومت کو گرانے کے لئے لانگ مارچ پر بضد ہیںبھلے ہی لاہوریوں کی بے اعتنائی کی وجہ سے لانگ مارچ کے لئے فروری کے پہلے ہفتے کی تاریخ دے دی گئی ہے۔ پی ڈی ایم کی قیادت کی حکومت گرانے کی خواہش کی شدت سے یہ بات تو عیاں ہو جاتی ہے کہ پی ڈی ایم بالخصوص مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کی قیادت ہر صورت میں حکومت کو گھر بھیجنا چاہتی ہے البتہ پیپلز پارٹی کا رویہ اس ضمن میں اس طرح مختلف ہے کہ پیپلز پارٹی یہ اعلان کر چکی ہے کہ عمران حکومت کے خاتمے کے لئے اگر اسے سندھ حکومت کی قربانی بھی دینا پڑی تو اس سے بھی گریز نہیں کرے گی۔پیپلز پارٹی کے موقف سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ پیپلز پارٹی حکومت گرانے کے لئے کسی غیر آئینی سرگرمی میں پی ڈی ایم کا حصہ بننے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف حکومت کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کے سارے ہنگامے کا مقصد سینٹ الیکشن ثبوتاژ کرنا ہے۔ اسی لئے حکومت نے سینٹ الیکشن 30روز قبل کرانے کا اعلان کر کے پی ڈی ایم کی قیادت کو مزید مشتعل کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا غیر آئینی طریقے سے حکومت گرانے سے انکارایک لحاظ سے دانشمندانہ اور مستحسن فیصلہ ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں جب بھی سیاستدانوں نے حکومتوں کو گھر بھیجنے کے لئے غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کئے اس کا نقصان ہمیشہ جمہوریت اور سیاستدانوں کو ہوا اور بقول آصف علی زرداری کے ’’ دودھ بلا پی جاتا ہے‘‘۔ سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی سوچ سے ایک خوش آئند پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں میں سیاسی پختگی آئی ہے اور وہ سیاسی مسائل اور ان کی پیچیدگیوں کا کسی حد تک ادراک رکھتے ہیں اگر ملک میں جیسے تیسے جمہوری نظام چلتا رہا تو یہ ادراک مزید پختہ اور سیاست میں مزید سنجیدگی آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت اگر اقتدار کی سیاست کے ساتھ معاملات کی سنگینی خاص طور پربین الاقوامی طاقتوں کی سازشوں کے اثرات پر بھی غور کرنا شروع کرے تو یقینا یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہ ہو گا کہ ہماری اندرونی کمزوریوں کو عالمی طاقتوں نے ہمیشہ ہتھیار بنا کر اپنے اہداف حاصل کئے ہیں۔اس کی ایک بدترین مثال سابق امریکی سیکرٹری خارجہ ہنری کسنجر کا امریکی جریدے اٹلانٹک کو انٹرویو میں یہ انکشاف ہے کہ امریکی صدر نے یحییٰ خان کو مشرقی پاکستان کو مارچ 1971ء میں آزاد کرنے پر قائل کر لیا تھا۔ اس انکشاف میں پاکستانی سیاسی قیادت کے لئے سمجھنے کی یہ بات ہے کہ یحییٰ خان مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے پر آمادہ ہی کیوں ہوئے۔ ظاہر ہے یحییٰ حکومت کو ملک میں سیاسی جماعتوں کے ناقابل برداشت دبائو اور تحریک کا سامنا تھا۔ فوجی حکومت کے خلاف ایک طرف پیپلز پارٹی کی قیادت میں سیاسی جماعتیں احتجاج کر کے ملک کو مفلوج کر چکی تھیں تو دوسری طرف بلوچستان کی شورش جڑ پکڑتی جا رہی تھیں ان حالات میں مشرقی پاکستان کے عوام کی بے چینی اور پرتشدد حالات کو کنٹرول کرنا پاک فوج کے لئے ممکن نہ تھا۔ یہ پاکستان کے اندرونی حالات ہی تھے کہ جن کی وجہ سے بیرونی طاقتوں کو اپنا اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملا۔امریکہ ایک طرف پاکستان کو خلیج بنگال میں چھٹے امریکی بحری بیڑے کی آمد کا جھانسا دے رہا تھا تو دوسری طرف بقول بریگیڈئیر سیمسن سائمن شرف امریکی سی آئی اے کی تربیت یافتہ تبتین گوریلا فورس مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے غنڈوں کوگوریلا جنگ کی تربیت ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ مل کر پاکستانیوں کا قتل عام بھی کر رہی تھی۔ شوکت پردیسی نے کیا خوب کہا ہے: دیتا رہا فریب مسلسل کوئی مگر امکان التفات سے ہم کھیلتے رہے کیا یہ امریکہ کا فریب نہیں تھا جو مشرقی پاکستان میں پاکستانیوں کی مدد کے لئے بحری بیڑے کی آس بندھاتے ہوئے تھا تو دوسری طرف سی آئی اے کی نگرانی میں مکتی باہنی ایسی خون خوار گوریلا فورس پاکستان کو توڑنے میں مصروف تھی اس سے بڑھ کر خود فریبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی یہ کہے کہ تبتین گوریلا فورس کی مشرقی پاکستان میں سفاکیت سے امریکی حکام بے خبر تھے۔ یہ طفل تسلی بھی قابل فہم ہوتی اگر ہنری کسنجر نے جیفری گولڈ برگ کو انٹرویو میں یہ نہ کہا ہوتا کہ ’’ہمیں خود پر یقین ہونا چاہیے امریکیوں کے لئے اصل سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیا ہے جس کی وہ کسی صورت اجازت نہیں دے سکتے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اہداف کے حصول کے لئے امریکی اقدامات کی قانونی حیثیت کیا ہے یا پھر دنیا ان کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔‘‘ ہنری کسنجر کے انکشافات سے ایک بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ اپنے اہداف کے لئے دوسرے ممالک میں خون کے دریا بہانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ امریکہ نے یحییٰ خان کو مشرقی پاکستان کو آزاد کرنے کے لئے آمادہ کرنے پر دبائو بڑھانے کے لئے کتنا عرصہ پہلے منصوبہ بندی شروع کی ہو گی اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے اس وقت کی سیاسی قیادت کو کیا کیا سبز باغ دکھائے ہوں گے اب یہ بھی کوئی راز نہیں رہا کہ امریکہ مشرقی پاکستان کو اس لئے بنگلہ دیش بنانا چاہتا تھا کیونکہ مشرقی پاکستان میں کمیونسٹ سوچ کے لوگ موجود تھے جو سرد جنگ میں پاکستان کے امریکہ کے کھیل کو خراب یا کم از کم مشکل بنا سکتے تھے۔ پاکستانی سیاستدانوں کو یہ بات بھی سوچنی چاہیے کہ 1977ء کی اسلامی نظام کی تحریک کا مقصد پاکستان میں نفاذ اسلام سے زیادہ فوجی حکومت کے قیام کے ذریعے افغان جنگ میں پاکستان کا استعمال تھا۔1988ء سے شروع ہونے والا لولا لنگڑا جمہوری نظام اس لئے نہ چلنے دیا گیا کیونکہ امریکہ کو افغانستان پر ایک بار پھر جنگ مسلط کرنا تھی۔ اب ایک بار پھر عمران خان کو پی ڈی ایم کی احتجاجی سیاست کا سامنا ہے اگر یہ احتجاج صرف عمران حکومت کے خاتمے تک محدود رہے تو یہ سیاست اور جمہوریت کا حسن کہلائے گا لیکن اگر یہ کھیل کسی عالمی ایجنڈے کا حصہ بن گیا تو یہ سیاسی قیادت کے لئے لمحہ فکریہ ہو گا پی ڈی ایم کی قیادت کو ممکنہ ہی سہی مگر اس پہلو پر سوچ بچار ضرور کرنا چاہیے کہیں احمد ندیم قاسمی کا کہا سچ ثابت نہ ہو جائے: فریب کھانے کو پیشہ بنا لیا ہم نے جب ایک بار وفا کا فریب کھا بیٹھے