قدیم یونان کا شاعرہومر اندھاسہی مگر صاحب بصیرت ضرورتھا۔ اس نے حکمرانوں کی ہوس اور لالچ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کو باطن کی آنکھ سے دیکھ لیا تھا۔ ہومر نے یورپ کی حسین ترین عورت ہیلن کے لئے دس سال تک لڑی جانے والی ٹرائے کی جنگ کی تباہی کو اپنی شہرہ آفاق رزمیہ نظموں ایلیڈ اور اوڈیسی کی صورت میں اقوام عالم کے سبق کے لئے محفوظ کر دیا۔33سو سال کے شعوری ارتقا کے بعد آج بھی زمین کے خدا لالچ اور ہوس کے غلام ہیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ دنیا کے نقشے پر عالمی طاقت بن کر ابھرا مگر ہوس اور طاقت نے اسے دنیا کے وسائل پر قبضے پر اکسایا ۔ امریکہ نے قدیم یونانی اساطیر کی طرح خدا پرستی کا’’ سیب‘‘ اچھال کر سرد جنگ کی بنیاد رکھ دی ۔مذہب کے نام پر لڑی جانے والی اس جنگ میں افغانستان کو میدان جنگ بنایا گیا۔ لاکھوں افغانوں کی لاشوں پر امریکہ نے واحد سپر پاور کا تخت بچھایا ۔ امریکہ کا طاقت کا خمار اور دنیا کے وسائل پر قبضے خواہش نے مذہب کو دہشت گردی کی صورت میں ڈھال دیا اور اس کی یہ ہوسناکی عراق، لیبیا، شام ،یمن اور افغانستان میں 25لاکھ انسانوں کو نگل گئی اوردنیا تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی بقول شاعر اک درد ہے پھیلا ہوا، اک آگ ہے دہکی ہوئی حدِ گماں تک ہے دھواں، نہ وقت ہے نہ لوگ ہیں دنیا کے وسائل پر قبضے کے لئے آگ اور خون کے اس کھیل کی راکھ سے امریکہ کے خلاف نفرت بڑھی اور امن و خوشحالی کی کونپل چین کی صورت میں پھوٹی۔ چین نے دنیا کو ترقی اور خوشحالی کے لئے دوسروں کے وسائل پر قبضے کے بجائے سلک روڈ پراجیکٹ کی صورت میں صرف خواب ہی نہیں دکھایا بلکہ باہمی تجارت کے ذریعے ترقی اور خوشحالی کی مشترکہ منزل کے حوصول کے لئے 7ٹریلین ڈالر کا سرمایہ فراہم کرنے کا حوصلہ بھی دکھایا۔ چین نے دنیا کے 167ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور ذرائع نقل و حمل میں آسانی سے باہمی تجارت پر آمادہ کیا۔ نفرت اور جنگ کے بجائے علاقائی مسائل کو پس پشت ڈال کر مشترکہ ترقی کے لئے تعاون کی دعوت دی یہاں تک کہ سرحدی تنازعات کی موجودگی میں بھی بھارت کو باہم ترقی کے اس منصوبے میں شامل ہونے کی پیش کش کی۔ چین ایشیا یورپ افریقا اور لاطینی امریکہ کے 167ممالک کو باہمی تعاون کے 200منصوبوں کی صورت میں تعاون کی لڑی میں پرونا چاہتا ہے۔ چین کی جنگ کے بجائے تجارت کی پالیسی میں دنیا کے بیشتر ممالک کو اپنا اپنا مفاد نظر آیا تو عالمی برادری امریکہ کے بجائے چین کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوئی۔یہ صورت حال امریکہ کے اتحادیوں کی عالمی حکمرانی کے لئے خطرہ بننا شروع ہوئی تو امریکہ نے چین کے بی آر آئی منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے دنیا کے مختلف ممالک پر دبائو ڈالنا شروع کیا۔ بھارت کو چین کے مقابلے میں ایشیا کی طاقت بننے کا خواب دکھایا دیگر ممالک کے باہمی تنازعات کو ہوا دے کر بھی دیکھ لیا مگر دنیا کے غریب ممالک نے آگ اور خون کے کھیل کے بجائے باہمی تجارت اور مشترکہ ترقی کے خواب سے دستبردار ہونے سے انکار کیا جس طرح 33صدیاں پہلے پیلو دیوتا اور تھیٹس دیوی کی شادی میں بھنگ ڈالنے کے لئے فساد کی دیوی ایرس نے سونے کا سبب پھینکاتھا ، بالکل اسی طرح 167ممالک کی ترقی کے منصوبے بی آر آئی کی شادمانی کو زائل کرنے کے لیے آج کے فساد کے دیوتا امریکہ نے جی سیون کی 47 ویں سمٹ میں بی 3و ڈیلیو کی شکل میں اب کی بار’’ سونے کا سیب‘‘ اچھال دیا ہے۔ امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بلڈ بیک بیٹر ورلڈ (B3W) کے 40 ٹریلین ڈالر سونے کے سیب کے ذریعے عالمی ترقی کا سوانگ رچانا چاہتا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے سینئر اہلکار نے دنیا کو فریب دینے کے لئے 40 ٹریلین کے اس منصوبے کے بارے میں یہ دعویٰ تو کیا ہے کہ یہ منصوبہ چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے مقابلے کے لئے نہیں بلکہ ترقی کا متبادل منصوبہ ہے مگر دنیا کو یہ نہیں بتایا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ’’دوبارہ بہتر دنیا بنانے‘‘ کے لئے کیا کرنے والے ہیں۔ امریکہ کو عالمی جنگوں میں 26ٹریلین ڈالر جھونکنے کے بعد عالمی ترقی کا خیال کیوں آیا؟ فساد کا دیوتا فاصلے کم کر کے باہمی تجارت کو بڑھا کر چین کے باہمی ترقی کے منصوبے سے بہتر کیا متبادل دے گا۔ اگر امریکہ کا مقصد واقعی بلڈ بیک بیٹر ورلڈ ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی چین کے 7 ٹریلین ڈالر کے منصوبے میں اپنے 40ٹریلین ڈالر شامل کر کے دنیا سے غربت اور پسماندگی کیوں ختم نہیںکرتے ہیں۔ مگر اس کے لئے دوسروں کے وسائل پر قبضے کی پالیسی ترک کر کے غریب ممالک کی ترقی کے لئے بنیادی ڈھانچا مکمل کرنا اور باہمی تجارت کو فروغ دینا ہو گا اگر امریکہ اور اس کے اتحادی بہتر دنیا کے لئے غریب ممالک کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر چین کے متبادل کیوں چین سے مل کر کیوں نہیں ؟ چین اپنے بدترین دشمن ممالک بشمول بھارت اور امریکہ کو باہمی تجارت کے فروغ کے ذریعے ترقی اور خوشحالی کی دعوت بھی دے چکا ہے۔ سمٹ میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے بی 3ڈبلیو کے تحت افریقا اور ایشیا کے ممالک میں ترقیاتی منصوبوں کی بات کی ہے گویا امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جس دنیا کو پہلے اپنے مفادات کے لئے تباہ کیا اب عالمی حکمرانی کے لئے تباہ دنیا کو دوبارہ بہتر بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے: کس زبان سے کہہ رہے ہو آج تم سوداگرو دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو