فیلڈ مارشل ایوب خان نے وطن عزیز میں 7 ڈیم تعمیر کروائے، بنگلہ دیش میں ان کے دور اقتدار میں تعمیر کروایا گیا ڈیم آج بھی بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ ایوب خان نے ایک طرف آبی ذخائر تعمیر کروائے اور دوسری طرح بھارت کے ساتھ متنازعہ سندھ طاس معاہدہ کیا۔ ان کے دور حکومت میں ملک نے خوب معاشی ترقی کی لیکن ثمرات اس دور کے مشہور 22 خاندانوں کے دائرے سے باہر عام آدمی تک منتقل نہیں ہوسکے۔ تاہم ایوب خان کیخلاف -1969 1968ء میں سیاسی جماعتوں کا احتجاج حد سے زیادہ بڑھ گیا تو انھوں نے اقتدار سے علیحدگی میں عافیت سمجھی کیونکہ جمہوری مجلس عامہ کے کنوینر نوابزادہ نصر اللہ خان کے ذریعے مدعو کی گئی کانفرنس میں ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا عبد الحمید بھاشانی نے شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا، بلا آخر 1970 ء کے عام انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ کے تناظر میں نیشنل عوامی پارٹی پر 1971ء میں یحییٰ خان نے پابندی عائد کروا دی، 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں بھی نیشنل عوامی پارٹی پابندی کی زد میں آئی۔ این ڈی پی کے نام سے سیاست جاری رہی، آخر کار عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے سیاست میں آگئے، ان دنوں سیلاب کی تباہی کاریاں، پی ٹی آئی پر پابندی عائد کروانے کی صدائیں، بازگشت کی صورت میں سنائی دے رہی ہیں جبکہ مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے بلند ہونے اور نیب قوانین میں 50 کڑوڑ سے کم رقم پر کرپشن کا دائرہ کار محدود ہونے کے تمام معاملات ماضی کی تلخ حقیقتوں کی طرف اشارہ کناں ہیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی کی 13 جماعتوں کے انتقامی اتحاد کی سوچ کھل کر نواز شریف کی جانب سے جلد از جلد ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی صورت میں سامنے آئی۔ ایک اور بات آشکار ہوئی کہ آصف علی زرداری کی بجائے پی ڈی ایم کے اصل کھلاڈی مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف ہیں جو کسی صورت فوری انتخابات کے حامی نہیں، وجہ عمران خان کی ضمنی انتخابات میں سامنے آنے والی کامیابی ہے۔ مولانا کو کے پی کے اور بڑے میاں صاحب کو پنجاب ہاتھ سے نکلتا نظر آرہا ہے، اب سوال ہے کہ کیا پی ڈی ایم کے ان بڑوں کی خواہش پوری ہو پائیگی؟ محسوس ہوتا ہے؛ جمہوری انداز اور میچ فکسنگ دونوں صورتوں میں ہزاروں خواہشوں کی مانند یہ خواہش بھی پوری نہ ہوسکے گی۔ پی ٹی آئی کیخلاف ہر حربہ اسکی مقبولیت میں اضافے کا موجب بن رہا ہے اور بنتا چلا جا رہا ہے، بلاشبہ عمران حکومت کا تختہ الٹنا سیاسی خودکشی تھی، جسکے نقصانات کا سامنا ن لیگ اور جے یو آئی (ف) کو سب سے زیادہ ہواہے۔ زرداری سندھ میں تاحال محفوظ ہیں، بلوچستان کا معاملہ الگ ہے، ماضی میں تمام تر کریک ڈاؤن اور پابندیوں کے باوجود نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان، صوبہ سرحد میں اپنے گورنر مقرر کروا گئی تھی۔ مفتی محمود مرحوم صوبہ سرحد اور سردار اختر مینگل بلوچستان میں انہی کے سیاسی تعاون سے وزرائے اعلیٰ بن پائے تھے۔ پی ٹی آئی، این اے پی کی طرح بلوچستان میں مضبوط نہیں لیکن ان کی نسبت موجودہ منظر نامہ میں ملک کی سب سے بڑی وفاقی جماعت ہے، یہی وجہ ہیکہ عمران خان نے آئندہ قومی اسمبلی کے 9 حلقوں میں بذات خود الیکشن لڑنے کا خطرناک فیصلہ کیا ہے، بہرحال پی ٹی آئی پر پابندی، عمران خان کی نااہلی، انکی گرفتاری جیسی خواہشاتِ ملک کو انارکی کی طرف لے جائینگی۔ اداروں کی ساکھ مزید متاثر ہوگی لیکن پی ٹی آئی پھر بھی کسی نہ کسی صورت میدان میں موجود رہے گی، چاہے نئے نام سے، البتہ اس صورت میں پی ڈی ایم و دیگر مخالفین عمران خان کی عوامی مقبولیت میں مزید اضافے کی وجہ بنیں گے، دراصل کرپشن پر پی پی پی اور ن لیگ ایک دوسرے پر مقدمات قائم کرتی رہیں، اب نیب قوانین میں دوسری مرتبہ ترمیمی آرڈیننس 2022ء منظور کر چکی ہیں، ان حالات و واقعات میں عام آدمی عمران خان کی باتوں کا اثر قبول کر چکا ہے، آج بھی وطن عزیز میں ایوب خان کے دور اقتدار کی طرح اشرافیہ کی خوشحالی دوچند ہو رہی ہے جبکہ عوام کی واضح اکثریت گزر اوقات کے سنگیں مسائل و بحرانوں سے دوچار ہے۔ سرکاری محکموں کی کارکردگی صفر ہونے کے باوجود ایک جانب حکومت انکے اخراجات پورے کرتے ہوئے سارا بوجھ عوام کو منتقل کر رہی ہے، دوسری طرف ان محکموں میں کرپشن کے ناسور نے عام پاکستانی کی بنیادی سہولیات، ضروریات اور حقوق کو صلب کر رکھا ہے، رہی سہی کسر سیلاب کی تباہ کاریوں نے نکال دی ہے۔ ملک کی اقتدار میں شامل تمام جماعتوں کو فاران فنڈنگ کیس کے فیصلے کی تشریح کی فکر اس حقیقت کی بیخبری سے لاحق ہے کہ جب کبھی بھی نگران حکومت پر انکا آئین کے آرٹیکل 249 اے کے تحت پی ٹی آئی سے کچھ طے نا ہو پایا تو ایشو الیکشن کمیشن کے پاس جانا ہے لیکن چیف الیکشن کمشنر پر عمران خان مکمل عدم اعتماد اور ان کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں، گویا طے ہوا کہ اداروں کی جانبداری آئینی بحران کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، اداروں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ماضی سے سبق سیکھ کر دانشمندی سے کام لینا چائیے۔ عام آدمی بھوک سے مر رہا ہے، بلک رہا ہے، سیلاب انسانی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ اربوں کھربوں کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اور حکمرانوں کی توجہ صرف ذاتی و سیاسی مفادات پر ہے۔ مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کیلئے چھوٹے بڑے آبی ذخائر کی فوری تعمیر کی جامع پالیسی بنانی چائیے، بجلی بحران کا مسلسل خاتمہ بھی آبی ذخائر کی فوری تعمیر کے بغیر ممکن نہیں، چین کے تھری گورجیز ڈیم کی وقت سے قبل تعمیر کے فارمولے کو اپنایا جانا ضروری ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں دریاؤں، برفانی پانی کو سمندر برد کرنے سے بہتر ہے؛ آبی ذخائر کی تعمیر کر کے سستی توانائی سے زرعی و پیداواری شعبہ کو وسعت دے کر عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی پالیسی اپنائی جائے۔ معشیت کو خود کفیل بنایا جائے۔ آخر کب تک ماضی کے تماشے جاری رکھیں گے، ملک و قوم کو خوشحالی سے دور رکھیں گے؟