حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا تذکرہ سرکارِ دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث میں بھی ملتا ہے ۔چند احادیث کو حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف ’جمع الجوامع‘ میں حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ کے آخر ی باب تذکرہ یمن و شام کے تحت اور حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے رسالہ معدن العدنی میں تحریر فرمایا ہے ۔ان احادیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے ۔ 1 ۔سرکار دو عا لم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قبیلہ مراد کا ایک شخص ہے اس کا نام اویس ہے وہ تمہارے پاس یمن کے وفود میں آئے گا۔ اس کے جسم پر برص کے داغ تھے جو سب مٹ چکے ہیں صرف ایک داغ جو درہم کے برابر ہے باقی ہے وہ اپنی والدہ ماجدہ کی بہت خدمت کرتا ہے جب وہ اللہ عزوجل کی قسم کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو پور اکرتا ہے ۔اگر تم اس کی دعائے مغفرت لے سکو تو لینا۔(مسلم) 2۔حضرت ابن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا !’’ تابعین میں میرا بہترین دوست اویس قرنی (رضی اللہ عنہ ) ہے ۔‘‘(حاکم ،ابن سعد) 3۔سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ تابعین میں میرا دوست اویس قرنی (رضی اللہ عنہ ) ہے ۔اس کی ماں ہو گی جس کی وہ خدمت کرتا ہو گا اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر بات کرئے تو اللہ تعالیٰ اس کی قسم پوری کرتا ہے ۔اس کے جسم پر ایک سفید داغ ہو گا۔ اے صحابہ !(رضوان اللہ اجمعین ) تم اگر ملو تو اس سے دعا کروانا۔‘‘(مسلم) 4۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میری امت میں میرا دوست اویس قرنی (رضی اللہ عنہ ) ہے ۔‘‘(ابن سعد) 5۔سرکار مدینہ سرور قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ میری امت میں بعض ایسے بھی ہیں جو برہنہ رہنے کے سبب مسجد میں نہیں آسکتے ۔ان کا ایمان لوگوں سے سوال کرنے نہیں دیتا۔انہیں میں سے اویس (رضی اللہ عنہ) اور ہرم بن حیان (رضی اللہ عنہ ) ہیں ۔‘‘(ابونعیم) 6۔سرکار مدینہ راحت قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ میری اُمت میں ایک اویس (رضی اللہ عنہ ) نامی شخص ہو گا ۔ربیع و مضر (قبیلے ) کے آدمیوں کے برابر میری اُمت کی شفاعت کرے گا۔‘‘(ابن عدی) 7۔سرکار دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ میری امت میں سے ایک شخص کی شفاعت سے قبیلہ مضر اور قبیلہ ربیع کے آدمیوں سے زیادہ لوگ بہشت میں جائیں گے اور اس کا نام اویس (رضی اللہ عنہ ) ہو گا ۔‘‘(ابن شبیہ ،مستدرک ) 8۔مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’میری امت میں ایک شخص ہو گا جس کو لوگ اویس بن عبد اللہ قرنی (رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں ۔تحقیق اس کی دعائے مغفرت سے میری اُمت قبیلہ ربیع و قبیلہ مضر کی بھیڑ بکریوں کے بالوں کے برابر تعداد میں بخش دی جائے گی ۔‘‘(ابن عباس) 9۔سرکار مدینہ راحت قلب وسینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمیمن کی طرف رخ فرماتے سینہ مبارک سے کپڑا اٹھا تے اور فرماتے :’’ میں یمن کی طرف نسیم رحمت پاتا ہوں۔‘‘ (حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ومولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح فرمائی ہے کہ یہاں فرمان میں اشارہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی طرف ہے ۔) 10۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ تابعین میں سے ایک شخص ہے جس کا نام اویس (رضی اللہ عنہ ) ہے اس کی ایک ضعیف والدہ ہے ۔اویس (رضی اللہ عنہ )کے ہاتھ پر برص کا نشان ہے ۔ پس جب تم اس سے ملو تو اسے کہنا کہ امت کے حق میں مغفرت کی دعا کرے ۔‘‘(مسلم ۔ابو نعیم) اس حدیث مبارکہ میں سرکار دو عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو پہلے ہی سے فرما دیا کہ تم حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے ملو گے بلکہ ملنے کی ترغیب بھی دلا دی اور امت کے حق میں دعائے مغفرت کرانے کا حکم بھی فرما دیا ۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر امتی کے حالات کا علم ہے خواہ وہ کہیں بھی کسی بھی حال میں ہوا ۔اس لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا نہ صرف نام بلکہ ان کی بیماری کی تفصیلات اور جسم پر ایک سفید داغ اس کے مقام اور اس کے درہم برابر ہونے کا پتہ دے دیا ۔ولایت اور نبوت کیلئے حجابات کچھ حیثیت نہیں رکھتے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے عاشق حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں تو دوسری طرف دیوانہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوائف سے جمال و واقعات سے بے خبر نہ تھے ۔احکام شریعت کا دار و مدار ظاہر پر ہے ۔ اسی لئے تو عاشق و معشوق میں حجاب نہ ہونے کے باوجود حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو تابعی کہا گیا صحابی نہ کہا گیا ۔ ان احادیث سے یہ بھی واضح ہوا کہ بزرگان دین یعنی محبوبان خدا کے پاس طلب دعا کیلئے جانا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سنت مبارکہ ہے اور سرکار مدینہ سرور قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم بھی یہی ہے ۔ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے عشاق سے بے پناہ محبت فرماتے تھے بلکہ عاشق کی محبت سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر اور محبوبان خدا اور عشاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش اور زیارت کے لئے سفر کرنا ،معلومات حاصل کرنا یا کم از کم خواہش رکھنا صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی سنت مبارکہ ہے ۔بس واضح ہوا کہ جب ایک عاشق رسول کی شفاعت پر اتنے امتی بخشے جائیں گے تو سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو خود محبوب خدا ہیں کی شفاعت کا کیا عالم ہو گا۔