معزز قارئین !۔ میرا خیال ہے کہ ’’ 26 جون کو اسلام آباد میں امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ) کی میزبانی میں حزبِ اختلاف کی سیاسی / مذہبی جماعتوں کی کانفرنس ، جسے "All Parties Conference"کا نام دِیا گیا تھا ۔ ایک ایسا میلا ؔتھا جس میں اپنا اپنا راگ اور اپنی اپنی راگنی گانے والے سیاستدانوںمیں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ جب بھانت بھانت کی بولیاں بولی جائیں گی تو، محض میل ملا پ کو میلاتو نہیں کہا جاسکتا؟۔ الیکٹرانک میڈیا پر مجھے تو ، اُن میں سے ہر کوئی اکیلا ؔ نظر آیا۔ نہ جانے کس شاعر نے کہا تھا کہ … آئے بھی اکیلا ، جائے بھی اکیلا! دو دِن کی زندگی ، دو دِن کا میلا! فضل اُلرحمن صاحب کی اِس تجویز سے عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ ملّی عوامی پارٹی کے قائدین تو متفق تھے کہ ’’ حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں کے منتخب ارکان‘ پارلیمنٹ سے مستعفی ہو جائیں ، پارلیمنٹ کا گھیرائو کریں اور اسلام آباد کا "Lockdown"(تالا بندی) کردیں۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز صاحبہ بھی فضل اُلرحمن صاحب کی ’’ہم مسلک ‘‘ تھیں لیکن، پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف (قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ) اور ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ (پی۔ پی۔ پی۔ پی ) کے بلاول بھٹو زرداری کسی ایسی تحریک کے حمایتی نظر نہیں آئے کہ جس سے (بقول اُن کے ) جمہوریت ہی ختم ہو جائے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ 28 دسمبر 2016ء کو فضل اُلرحمن صاحب کا ایک بیان قومی اخبارات میں شائع ہُوا تھا جس میں اِنہوں نے کہا تھا کہ ’’ الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی صورت میں ’’ مُلا اورمولوی ‘‘ کہلانے والے امیدواروں کو عام انتخابات کے لئے نااہل قرار نہیں دے سکتا اور میرا یہ دعویٰ ہے کہ ’’ اب مُلا ہی سیاست کرے گا‘‘۔ اِس پر 30 دسمبر 2016ء کو ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’ مُلاّ سیاست کرتا رہے ‘‘۔ ناکام ہوتا رہے گا!۔ یقین کیجئے کہ مَیں نے 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں ’’ملاّ ‘‘( فضل اُلرحمن صاحب) کے بارے میں یہ پیشگوئی نہیں کی تھی کہ ’’ وہ قومی اسمبلی ہی سے "Out" ہو جائیں گے ‘‘۔ اب موصوف 25 جولائی 2019ء کو ’’یوم سیاہ / کالا دِن‘‘ (Black Day) منانے کا اعلان نہ کرتے اور کراتے تو اور کیا کرتے کراتے ؟۔اِس پر ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کہتے ہیں کہ … مل گئی جب ، مانگے ، تانگے کی ، سپاہِ مُک مُکا! پھر منا یا جائے گا ، یوم سیاہِ مُک مُکا! لیکن ، سوال یہ ہے کہ ’’ 25 جولائی 2019 کو تو، جمعرات کا دِن ہوگا ۔ اگر اُس روز ’’یوم سیاہ / کا لا دِن‘‘ منایا گیا تو ، وہ تو ’’ کالی جمعرات‘‘ کہلائے گی اور سیانے کہتے ہیں کہ ’’ کالی جمعرات کو کوئی کام شروع کرنا نقصان دہ ہوتا ہے ‘‘۔ 1963ء میں صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے صحافت اور اہلِ صحافت پر پابندیوں کے لئے "Press and Publication Ordinance" جاری کِیا تو ، پورے ملک میں صحافیوں کی مختلف تنظیموں نے اُس کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے اور بار بار ’’یوم سیاہ ‘‘ منایا۔ مَیں ’’سرگودھا یونین آف جرنلسٹس ‘‘ کا صدر تھا ۔ میری قیادت میں بھی صحافی برادری نے بازوئوں پر سیا ہ پٹیاں ؔباندھ کر شہر میں جلوس نکالا تھا۔ ایک صحافی دوست کا رنگ کالا تھا تو، راستے میں ایک وکیل نے اُسے کہا کہ’’بھائی جان!۔ آپ کو بازو پر سیاہ پٹی باندھنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ آپ اپنا بازو ہی کھول دیتے تو احتجاج ہو جاتا‘‘۔ معزز قارئین!۔ مجھے نہیں معلوم؟کہ جب فضل اُلرحمن صاحب اسلام آباد میں ’’ یوم سیاہ‘‘ کی قیادت کر رہے ہوں گے تو، کیا اُنہوں نے دائیں بازو پر پٹی باندھی ہوگی یا بائیں بازو پر؟ لیکن، مجھے تو ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ اور مسلم لیگ (ن) کے اُن قائدین سے ہمدردی ہے کہ جن پر مختلف الزامات کے تحت مقدمے چل رہے ہیں اور کبھی کبھی اُن کے مخالفین اُنہیں میڈیا پر چور، چور کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔ خدانخواستہ کسی نے اُنہیں ’’ کالا چور ، کالا چور‘‘ کہہ دِیا تو میرا ذمہ دوش پوش ۔ چشتیہ سلسلہ کے ولی اور پنجابی زبان کے پہلے شاعر فرید اُلدّین مسعود المعروف بابا فرید شکر گنج ؒنے اپنے بارے میں کہا تھا کہ … فریدا! کالے مَینڈے کپڑے ٗ کالا مَینڈا ویس! گُنِہیں بھریا میں پِھراں ٗ تے لوک کہن درویس! یعنی ۔’’ اے فرید!۔ مَیں نے کالے کپڑے پہن رکھے ہیں اور میرا بھیس بھی کالا ہے۔ مَیں گُناہوں سے بھرا ہوں۔ پھر بھی لوگ مجھے درویش کہتے ہیں۔بابا فریدؒ شکر گنج ؒ۔خاندانِ غلاماں کے بادشاہ غیاث اُلدّین بلبن ؔکے داماد تھے۔ وہ جو چاہتے اپنے سُسر بادشاہ سے مانگ سکتے تھے لیکن ٗصِرف اور صِرف اللہ تعالیٰ پر توکّل کرنے والے غیر اللہ سے کہاں مانگتے ہیں؟‘‘لیکن، فضل اُلرحمن صاحب تو سیاستدان ہیں اور سیاستدانوں کے بارے میں نہ جانے لوگ کیا کیا کہتے ہیں؟۔ وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دَور کے وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ خان بابر نے کہا تھا کہ ۔ ’’مَیں نے وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹوسے کہا کہ ’’اگر آپ مولانا فضل الرحمن کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی چابیاں بھی دے دیں ، تو بھی وہ خوش نہیں ہوں گے‘‘۔ اِس پر میڈیا نے فضل اُلرحمن صاحب سے پوچھا کہ ’’ آپ وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر پر ہتکِ عزّت کا دعویٰ کب کر رہے ہیں تو، اُنہوں نے جواب دِیا تھا کہ ’’ مَیں نے اپنے خلاف لگائے گئے الزام کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے‘‘۔9 ستمبر 2008ء کو جنابِ آصف زرداری نے صدارت کا منصب سنبھالا تو، اُنہوں نے ’’خود کلامی ‘‘ کرتے ہُوئے کہا کہ’’ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم مسئلہ کشمیر کو 30 سال کے لئے "Freeze" (منجمند) کرسکیں ۔ فضل اُلرحمن صاحب نے صدر زرداری کی خُود کلامیؔ سُن لی تھی ۔ پھر جنابِ صدر نے فضل اُلرحمن صاحب کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کردِیا ۔ اُن کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی موصوف کو اُسی عہدے پر فائز رکھا۔ اب اگر مسئلہ کشمیر منجمد ہوگیا (اور اب بھی ہے) تو اِس میں فضل اُلرحمن صاحب کو کیوں موردِ الزام ٹھہرایا جائے ؟۔ معزز قارئین!۔ (اُن دِنوں ) میاں نواز شریف وزیراعظم تھے جب، اپریل 2016ء کے اوائل میں فضل اُلرحمن صاحب کے بعض چاہنے والوں نے لکھا کہ ’’ اب مولانا فضل اُلرحمن ایک "Heavyweight Politician" (معمول سے زیادہ وزنی یا با رسوخ سیاستدان) ہیں لیکن، 28 اپریل کے اخبارات میں خبر شائع ہُوئی کہ ’’ جب گزشتہ روز وزیراعظم صاحب کی طرف سے ، مولانا فضل اُلرحمن کو مُرغن کھانے پیش کئے گئے تو، مولانا کو "Food Poisoning" ہوگئی ہے اور ڈاکٹروں نے اُنہیں مشورہ دِیا ہے کہ ’’ پیٹ کی خرابی اور معدے کی سُوجن کا فوری علاج کرانے کی ضرورت ہے۔ اِس پر 30 اپریل کو ’’ہیوی ویٹ مولانا فضل اُلرحمن؟‘‘ کے عنوان سے مَیں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ’’ ممکن ہے کہ وزیراعظم ہائوس کے کسی ملازم کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہو اور اُس نے فضل اُلرحمن صاحب کی خُوش خورؔاکی کی آڑ میں کھانے میں کچھ ملا نہ دِیا ہو؟ ۔ اِس پر ’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے بھی کہا تھا کہ … کچھ تنازع ہی نہیں تھا‘ ریٹ کا! مسئلہ معمولی تھا‘ بَس پیٹ کا! کْھل گیا دروازہ‘ پِچھلے گیٹ کا! ذکر ہے‘ مولانا ہیوی وؔیٹ کا! بہرحال مجھے نہیں معلوم کہ ’’ پرسوں 26 جون کو میزبان کی حیثیت سے ، فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے مہمانوں کو کیا کھلایا پلایا اور خود کیا کھایا پیا ؟لیکن، یہ بات طے ہوگئی ہے کہ ’’ اب فضل اُلرحمن صاحب سیاست کے میدان سے "Man Out of the Match" ہوگئے ہیں ۔ اب اُنہیں پھر سے قومی اسمبلی کا رُکن منتخب کرانے کے لئے بھلا اُن کے باری باری اتحادی ، مختلف مقدمات میں ملوث جناب آصف زرداری اور سزا یافتہ میاں نواز شریف اپنی اپنی پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کو کیوں اِس طرح کی تحریک چلانے کے احکامات جاری کردیں گے کہ ’’ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کو منسوخ کرانے اور نئے انتخابات کرانے کے لئے اپنی اپنی جان لڑا دیں ؟۔ سیانے کہتے ہیں کہ ’’ جان ہے تو جہان ہے ‘‘۔