برادرم ارشاد احمد عارف کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ موجودہ حکومتی قیادت کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس میں حرج بھی نہیں ہے‘ تاہم آج ان کی رگ حمیت نے وہ ساز چھیڑاہے جس سے میں قومی یکجہتی کے نام پر احتراز کر رہا تھا۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ یہ تاثر ملے کہ میں حکمراں مقتدرہ کی ہر بات میں کیڑے نکالتا ہوں۔ جنگ کا طبل بجے تو اس پر ہزار اختلاف قربان کئے جا سکتے ہیں۔ میں نے اتنا تو عرض کیا تھا کہ شاہ محمود قریشی ’’فارن منسٹر سٹ ‘‘نہیں ہیں۔ وہ حلقے یا پارٹی کی سیاست یا گروہی سیاست تو خوب کر سکتے ہیں اور اس لحاظ سے منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ مگر سفارت کاری دوسری چیز ہوا کرتی ہے۔ ارشاد عارف صاحب نے البتہ جو بات کی ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اس مشکل اور نازک گھڑی میں ملک کے اندر ہی کیوں ٹکے بیٹھے ہیں اور اس پر خوب گرہ لگائی کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ بالکل یوں لگتا ہے کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ انہوں نے چند سابق وزرائے خارجہ کا حوالہ بھی دیا جو ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان سے مشاورت سود مند ہو سکتی ہے۔ یہاں میں جسارت کرتے ہوئے ایک اور نکتے کا اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ کہ کسی نے یہ بارہ بجے والی تجویز پر بڑا خوبصورت تبصرہ کیا تھا کہ لگتا ہے یہ کسی زلفی کے ذہن کی پیداوار ہے۔ مجھے ذرا کھل کر بات کرنے کی اجازت دی جائے تو یہ عرض کروں کہ کشمیر اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے کہ انہیں این جی اوز کے سپرد کر دیا جائے۔ ان این جی اوز کو آج کل سول سوسائٹی کہا جاتا ہے۔ اس پر کئی بار تفصیل سے اظہار خیال کر چکا ہوں۔ یہ مابعد جدیدیت کی پیداوار ہے۔ کام کرنے کا ایک غیر سرکاری منہاج۔ یہ غیر سرکاری ہی نہیں ہے غیر سیاسی غیر انقلابی ہی ہے۔ ویسے گستاخی نہ ہو تو پوچھ لوں کہ جہاد اگر صرف حکومت کا فریضہ ہے اور کوئی نان سٹیٹ ایکٹر یعنی غیر سرکاری لشکر یا تنظیم اسے شروع نہیں کر سکتی تو کشمیر کو آپ کیوں اس غیر سرکاری مزاج کے سپرد کر رہے ہیں۔ مغرب کی یہ خواہش ہے کہ وہ ہمارے اندر ان غیر سرکاری تنظیموں کا چلن عام کر دے۔ وہ حکومتوں کو امداد دینے کے بجائے ایسی تنظیموں کو امداد دینا پسند کرتے ہیں۔ ان سے اپنے ڈھب کا کام لینا آسان ہوتا ہے۔پھر ان کا ایک مزاج ہوتا ہے جو ’’آفاقی‘‘ ہے۔ سب این جی اوز کی ایک ہی ’’شخصیت‘‘ ہے۔ میں ایجنڈا نہیں کہتا۔ سب اسی میں ڈھلی ہوتی ہیں۔ انہیں اگر کشمیر آزاد کرانے کا کام سونپا جائے تو یہ اس کا کیا سے کیا بنا دیں گے۔ میں نے کہا کہ ان کا ایک خاص مزاج ہے جو غیر سیاسی بھی ہے۔ غیر انقلابی بھی اور غیر سرکاری تو ہے ہی۔ ان سے آپ ایسے کام کی کیسے توقع کرتے ہیں جو جہاد کا تقاضا کرتی ہو چلئے آپ جہاد کو قتال سے الگ کر دیں۔ پھر بھی اس جدوجہد کا جو مزاج ہے۔ وہ اس سے قطعاً الگ ہے جو کسی این جی اوز کو سونپا جا سکتا ہے۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کہنے والے نے علامتی طور پر یہ کیوں کہا تھا کہ یہ کسی ’’زلفی‘‘ کے ذہن کی پیداوار ہے۔ 12بجے خاموش کھڑے ہو جائیے‘ ٹریفک جام ہوجائے‘ آدھ گھنٹے بعد اپنے کام شروع کر دیں۔ اس سے کیا خیال ہے کشمیر آزاد ہو جائے گا۔ اتنا تو ہوا کہ پہلی بار کرنے سے یہ تاثر ابھرا کہ ہم یک زبان ہو کر آواز اٹھا رہے ہیں‘ مرے بھی گھر والے مرے گرد اکٹھے ہو کر پاکستان اور کشمیر کے پرچموں کے پس منظر میں تصویر کھنچوا کر خوش ہوتے رہے اور فیس بک پر ڈال کر الم نشرح کر دیا۔ اگر مجھے موجودہ حکومت سے اختلاف بھی ہوتا اور اگر ان کی اس تجویز سے اختلاف بھی ہے تو بھی میں کشمیر کاز کے لئے یہ پسند کروں گا کہ مری آواز قوم کی آواز کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ تاہم میں اگر یہ محسوس کروں کہ اس سے کشمیر کے بارے میں قومی جذبات کی عکاسی ہو گی یا اس سے دنیا کی آنکھیں کھل جائیں گی تو یہ مناسب نہیں ہو گا۔دنیا یہی سمجھے گی کہ ہم نے اس قوم کو ان جدید ڈھکوسلوں پر لگا دیا ہے ‘اب یہ اور کوئی کام نہیں کر سکیں گے۔ سچ پوچھیے تو آپ اگر مجھ سے بھی پوچھیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے تو میں بھی وضاحت سے بتا نہ سکوں گا۔ مگر یہ بات تو ضرور کہوں گا کہ کشمیر ان ’’زلفیوں اور سلفیوں‘‘ سے آزاد نہیں ہو گا۔ ہمیں دنیا کو متحرک کرنا ہے۔ عالم اسلام کے حکمرانوں کے اگر مسائل ہیں تو وہاں کے عوام تک اپنا پیغام پہچانا ہے۔ ان مسلم حکمرانوں کے لئے ہمیں اس کارخیر سے روکنا مشکل ہو گا۔ ہم غیر مسلموں کے ضمیر کو بھی جگا سکتے ہیں۔ ان میں شعور پیدا کر سکتے ہیں۔ اس وقت تو یہ صورت ہے کہ ہمارے اپنے لوگ بھی مطمئن نہیں ہیں۔ کل ایک تقریب میں سبھی ایک سوال پوچھ رہے تھے کیا کشمیر ہمیشہ کے لئے ہم سے چھین گئے۔ کچھ الوالعزم جوش دکھاتے اور کہتے مودی یہ نہیں کر سکے گا۔ اس اقدام سے بھارت خود کئی ٹکڑوں میں بٹ سکتا ہے۔ چواین لائی جیسے مدبر نے سقوط ڈھاکہ پر کہا تھا یہ اختتام نہیں ہے۔ یہ تو اختتام کا آغاز ہے۔ ہمیں سب ممکنات کو دیکھنا ہے۔ میں تو سیدھی بات کرتا ہوں کہ کشمیر کا فیصلہ بھارت نے کرنا ہے نہ پاکستان نے ۔اس کا فیصلہ کشمیریوں نے کرنا ہے۔ ہمارا کردار تاریخ نے یہ طے کیا ہے کہ اگر کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں تو ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمیں انہیں اس ظلم سے کیسے بچانا ہے۔ یہ تو فوری اقدام ہے‘ پھر دنیا کو باور کرانا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ کشمیریوں کی رائے معلوم کی جائے۔ وہ جو چاہتے ہیں انسانیت کا فرض ہے کہ وہ انہیں دلایا جائے۔ عالمی مقتدرہ اس سے ہٹ کر سوچ رکھتی ہے۔ اس میں قصور ہمارا بھی ہے وہ زیادہ سے زیادہ یہ حل تجویز کریں گے کہ بھارت نے جو کچھ کہا‘ اسے اس کا اندرونی مسئلہ تسلیم کر لیا جائے۔ پھر بھارت زور لگائے گا کہ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پاکستان کا کیا دھرا ہے۔ اگر بات بہت بڑھ جائے تو بھارت حد سے حد یہ مان سکتا ہے کہ لائن آف کنٹرول کو عالمی سرحد تسلیم کر لیا جائے۔ ڈر یہ ہے کہ پاکستان میں اس قسم کی لابی کو تقویت دی جا رہی ہے۔ یہ این جی اوز ایسی ہی سوچ اور ہے کیا۔ آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ امن کے سفیر مصروف عمل ہو گئے ہیں۔ یہ سفیر کون ہیں‘ جنہیں اس کی زبان میں سیلبرٹی کہا جاتا ہے۔ اعلان ہوتا ہے کہ میں بھی لائن آف کنٹرول پر جا رہا ہوں یا جا رہی ہیں۔ ان کو ابھارا جا رہا ہے اور ابھارا جائے گا ایسا ہوا تو آپ دیکھیے گا کہ کشمیر کا مسئلہ کس طرح دیے جلانے جیسی سرگرمیوں تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔ فطرت لہو ترنگ ہے غافل نہ جل ترنگ اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ پھر آپ کو میڈم نورجہاں نغموں اور آج کے نغمہ گروں کا فرق سمجھ آئے گا۔ قہاری و جباری و قدوسی و جبروت کشمیر کی جنگ خون دل سے جیتی جائے گی۔ نام نہاد سول سوسائٹی کے چلن سے نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اعلان جنگ کر دو یہ بھی نہیں کہتا کہ کسی حافظ سعید کی زنجیریں کھول کر اذن سفر دے دو۔ یہ ضرور کہتا ہوں‘ کشمیر بدل گیا ہے اور بدل رہا ہے اور ہمیں تاریخ کے درست سمت رہنا ہے۔ کشمیر اب پھر کسی مشرف کے آئوٹ آف باکس منصوبے کا سزاوار نہیں ہو سکتا۔ درست تجویز ہے کہ سابق وزرائے خارجہ کو بلائیے اور سر جوڑ کر بیٹھئے‘ ماہرین حرب کے خیالات بھی سنئے اور روبہ عمل ہو جائیے۔ کشمیر ہمیں پکار رہا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا نہ ہو جائیے۔