کائنات کی ہر وہ شے جو انسان کو بنی بنائی مل گئی، نیچر یا فطرت کہلاتی ہے۔ جمادات، نباتات، حیوانات سبھی۔ جھرنے، پہاڑ، وادیاں، دریا، درخت، ہوائیں، موسم اور ان سب سے مل کر بننے نظارے، سب فطرت ہے۔ انسان خود بھی فطرت ہی کا حصہ ہے کہ اس کا خمیر بھی تو دھرتی سے اٹھتا ہے۔ آسمانوں سے تو فقط روح اترتی ہے۔ فطرت کے یہ مظاہر یوں تو اک دوجے کے درپے رہا کرتے ہیں مگر کبھی نگہبانی بھی کرتے ہیں۔ ایک واقعہ سنئے۔ کرہ ارض کے گیارہ فی صد رقبے پر محیط‘ دنیا کے سب سے بڑے ملک روس کا وفاق پچاسی اکائیوں میں منقسم ہے جن میں سے بائیس کو ری پبلک کہتے ہیں۔ روئے زمیں کے اس سب سے بڑے ملک کا 77 فی صد حصہ سائبیریا پر مشتمل ہے۔ جنگلات‘ برف زاروں‘ پہاڑوں اور میدانوں سے ڈھکا سائبیریا بحیرہ اٹلانٹک سے شمالی قازقستان تک اور دوسری طرف منگولیا سے چین تک پھیلا ہے۔ اسی سائبیریا میں ایک ٹووا ری پبلک ہے جو ایک لاکھ ستر ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی ہے اور آبادی صرف تین لاکھ آٹھ ہزار۔ گویا ایک مربع کلومیٹر میں دو افراد بھی پورے نہیں۔ اس کے سترہ اضلاع ہیں۔ یہ کہانی انہی اضلاع میں سے ایک ضلع خمسکی کے ایک چھوٹے سے گائوں’’کْھٹ‘‘ کی ہے۔ صنوبر کے جنگلات میں گھِرا بالکل چھوٹا سا گائوں‘ جہاں فقط تریسٹھ گھر ہیں اور ان گھروں میں بستے فقط چار سو افراد۔ سیرین تین برس کا بچہ تھا۔ سیرین کا باپ فوجی تھا جو گائوں میں نہیں رہتا‘ اپنی جائے تعیناتی پر تھا۔ اْس روز سیرین کے گھر کے دیگر سبھی افراد کھیتوں کھلیانوں سے خشک گھاس اکٹھی کرنے گئے ہوئے تھے کہ جاڑا آنے کو تھا اور وہاں پالا ایسا پڑتا ہے کہ زندگی منجمد ہوکر رہ جاتی ہے۔ چناں چہ ان دنوں سوکھی گھاس جمع کی جارہی تھی جو جاڑوں میں آگ جلانے کو معاون ہوتی تھی۔ سیرین‘ بہت چھوٹا تھا اور اس کی پردادی بے حد ضعیف۔ دونوں گھاس جمع کرنے کا مشقت آمیز کام نہیں کرسکتے، سو دونوں ہی گھر پر تھے۔ سیرین گھر کے باہر کھیل رہا تھا کہ اسے ایک بڑا خوب صورت سا پِلّا نظر آیا۔ ننھا سیرین اس کو پکڑنے کو لپکا۔ طویل قامت صنوبر اور دیودار کے درختوں کا جنگل گائوں کی آبادی پرچڑھا آتا تھا۔ سیرین اس پلے کے پیچھے بھاگتا ہوا جنگل میں داخل ہوگیا اور پھر راستہ کھو بیٹھا۔ بعد سہہ پہر افرادِ خانہ تھکے ہارے واپس آئے تو پردادی موجود مگر سیرین لاپتہ تھا۔ پردادی کو بھی تبھی پتہ چلا کہ بچہ غائب ہے۔ تلاش‘ پوچھ تاچھ مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ پولیس کو اطلاع دی گئی اور سرچ آپریشن شروع ہوا۔ بہتر گھنٹے، نصف جن کے چھتیس ہوتے ہیں‘ جی ہاں! تین روز پیہم تلاش جاری رہی۔ رشین ایمرجنسی منسٹری کے سٹاف اور پولیس افسران و اہل کاران کے ساتھ سیرین کے عزیز و اقارب اور پڑوسی اس تلاش میں شانہ بہ شانہ تھے۔ سینکڑوں افراد جنگل میں پھیل گئے۔ زمینی تلاش کے ساتھ ساتھ ایک ہیلی کاپٹر بھی اس مہم میں شامل ہوگیا۔ ضلعی اور ریاستی حکام کو اس ساری سرگرمی سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا جارہا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا‘ تلاش کرنے والوں کے اعصاب پر مایوسی کے احساس نے غلبہ پانا شروع کردیا۔ مقامی موسم کا یہ عالم کہ دن میں تو کسی قدر تمازت ہوتی جب کہ رات کو درجہ حرارت نقطہ انجماد کو چھو کے آگے بڑھنے لگتا۔ سیرین دن کے وقت غائب ہوا۔ اس نے کوئی گرم کپڑا نہیں پہنا ہوا تھا۔ کوٹ‘ سوئیٹر کچھ بھی نہیں‘ بس ایک شرٹ۔ تیسرا دن شروع ہوگیا تھا‘ سیرین کے متلاشی اَب کسی ناگوار منظر کے لئے خود کو تیار کرنے لگے تھے۔ یہ جنگل خون خوار بھیڑیوں اور ریچھوں کا مسکن بھی تھا۔ انسانوں کی طرح ریچھ بھی آنے والے جاڑوں کی تیاری کر رہے تھے۔ مقامی حکام کہتے ہیں کہ ان دنوں ریچھوں کو جو بھی حرکت کرتی ہوئی شئے نظر آئے، اسے مار کر سٹور کرلیتے ہیں کہ جاڑوں میں کام آئے۔ تلاش کرنے والوں کی سوچوں میں یہی احساس مایوسی کے جھکڑ چلاتا مگر تلاش پھر بھی جاری تھی۔ تیسرا دن دوپہر کا سفر تمام کرچکنے کو تھا جب سیرین کے چچا نے یاس میں لپٹی آواز سے سیرین کو پکارا۔ یہ گویا آخری پکار تھی۔ کچھ فاصلے سے سیرین کی جوابی آواز اْبھری۔ چچا چونک گیا اور دیوانہ وار آواز کی سمت دوڑا۔ ایک طویل قامت دیودار کی اْبھری ہوئی جڑوں کے درمیان ننھا سیرین بیٹھا تھا، گویا دیودار کی گود میں۔ چچا نے لپک کر سیرین کو اٹھایا اورگلے سے لگا کر بھینچ لیا۔ بھیگی آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں والے چچا کی گود میں آکر سیرین نے پہلا سوال یہ کیا ’’گھر میں جو میری کھلونا کار ہے، وہ ٹھیک ہے نا؟‘‘۔ سیرین نے بتایا کہ اس کی جیب میں ایک چاکلیٹ تھا جو اس نے پہلے دن کھالیا۔ اسے گھر کا رستہ نہیں مل رہا تھا۔ شام ہوئی تو وہ دیودار کے اس درخت کی زمین سے اْبھری ہوئی جڑوں کے درمیان لیٹ کے سو گیا۔ ننھا بچہ بس اتنی ہی تفصیلات بتاسکا۔ تین دن اس نے فطرت کی آغوش میں کیسے گزارے‘ اسے کچھ پتہ نہیں۔ کسی نے درست ہی کہاوت بنائی ہے ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘۔ تین سال کا بچہ ہوتا ہی کتنا ہے، باتھ روم تک خود نہیں جاسکتا کْجا یہ کہ اپنا خیال خود رکھے۔ تین دن سردی نے اسے کچھ نہ کہا۔ریچھ‘ بھیڑئے، سانپ‘ کیڑے کوئی بھی اس کے قریب نہ آیا۔ کون تھا جو اس کا خیال رکھتا رہا؟ یقینا فطرت نے اسے اپنی گود میں بھر کے ان سب سے محفوظ رکھا۔ اصل ماں تو فطرت ہی ہے۔ یہ چار سال پہلے کا وقوعہ ہے جو یونہی گوگل پر آوارہ گردی کرتے نظر پڑا۔ سیرین کے مل جانے کا باقاعدہ اعلان ٹووا ری پبلک حکومت کے چیئرمین مسٹر شولبان کارا اْول نے خود کیا۔ وہ آپریشن کی براہِ راست نگرانی کررہے تھے اور جب سیرین کو تلاش کیا جاچکا تو انہوں نے ٹویٹ کیا ’’ہْرّے!! انہوں نے ننھے سیرین کو زندہ تلاش کرلیا ہے‘‘۔ اسی زمین پر ایک ملک اور بھی ہے، رقبے کے لحاظ سے چھتیسواں اور آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک۔ یہاں کسی زمین دار کے خوں خوار کتے کسی غریب کی ننھی بچی کو پھاڑکھائیں۔ کوئی انسان نما درندہ معصوم بچی کو جنسی اذیتیں دے دے کر مار ڈالے۔ کوئی بدبخت سو سو بچوں کوزیادتی کے بعد قتل کردے۔ عربوں کی تفریح طبع کو اونٹوں پر باندھنے کے لئے بچے سمگل کئے جائیں۔ کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔