پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو مزید اقدامات پر عمل درآمد کے لئے فروری 2021ء تک کی مہلت دے دی گئی ہے۔ اس وقت تک پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا جائیگا ۔ایف اے ٹی ایف کے تین روزہ اجلاس میں منی لانڈرنگ ار ٹیرر فنانسنگ کے انسداد کے لئے پاکستانی اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکس پلئیر کا کہنا ہے کہ پاکستان نے 21نکات پر عمل کیا ہے جبکہ 6نکات پر ابھی عمل کرنا باقی ہے۔ ایف اے ٹی ایف حکام کے مطابق پاکستان جب تمام 27 نکات پر عمل درآمد یقینی بنا لے گا تب ایک ٹیم پاکستان کا دور ہ کرے گی جس کا مقصد زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔فیٹف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جن 6 نکات پر عمل کرنا ہے ، وہ بہت اہم ہیں، حکومت پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان پرعملدرآمد کرے گی اور پاکستان نکات پرعملدرآمد کے حوالے سے پیشرفت کررہا ہے۔ایف اے ٹی ایف نے ایکشن پلان پرپیشرفت میں پاکستانی اقدامات کی تعریف کی ہے۔صدرفیٹف نے کہا کہ پاکستان کوبلیک لسٹ میں ڈالنے کی ضرورت نہیں، پاکستان کوکارکردگی کاموقع نہ دینا غیر منصفانہ ہوگا،اگلے اجلاس میں پاکستان 6مطالبات پورے کرنے پرگرے لسٹ سے نکل جائیگا۔اجلاس نے ایران اور شمالی کوریا کا نام بلیک لسٹ میں رکھنے کا جبکہ آئس لینڈ اور منگولیاکا نام گرے لسٹ سے نکالنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار محمد حماد اظہر نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان پر شاندار کارکردگی دکھائی ہے ، دن رات محنت کرنے پر وفاقی اورصوبائی ٹیموں کو مبارک باد دیتا ہوں ، ایک سال میں اکیس نکات پرعملدر آمد بڑی کامیابی ہے۔ پاکستان کو جون 2018 میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھانے کے لیے اکتوبر 2019 تک کا وقت دیا گیا تھا جس میں بعدازاں چار مہینے کی توسیع کر دی گئی تھی۔ پاکستان نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ دی گئی اس مہلت کے دوران ضروری قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کے لیے ایک موثر نظام تیار کر لے گا۔فروری 2020 تک پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی 27 سفارشات میں سے صرف 14 پر عمل کیا تھا اور باقی رہ جانے والی 13 سفارشات پوری کرنے کے لیے اسے مزید چار ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ ایف اے ٹی ایف ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جس کا قیام سنہ 1989 میں عمل میں آیا تھا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنا اور اس مقصد کے لیے قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات کرنا ہیں۔اس تنظیم کے 35 ارکان ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، چین اور بھارت بھی شامل ہیں، البتہ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے۔سن 2000 کے بعد سے ایف اے ٹی ایف وقتاً فوقتاً ایک فہرست جاری کرتا ہے، جس میں ان ملکوں کے نام شامل کیے جاتے ہیں جو اس کے خیال میں کالے دھن کو سفید کرنے اور دہشت گردی کی مالی پشت پناہی سے روکنے کی سفارشات پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔اس وقت دنیا کے 16 ممالک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہیں۔ اسی طرح ایک بلیک لسٹ بھی ہے جس میں اس وقت ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔گرے لسٹ میں موجود ممالک پر عالمی سطح پر مختلف نوعیت کی معاشی پابندیاں لگ سکتی ہیں جبکہ عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ بھی اسی بنیاد پر روکا جا سکتا ہے۔ 11 اکتوبر کو (اے پی جی) کی ایک رپورٹ (ایم ای آر) میں پاکستان کو ’اِنہانسڈ فالو اپ‘ فہرست میں ڈالا گیا ہے۔اے پی جی، ایف اے ٹی ایف سے منسلک ایک ادارہ ہے جو خطے میں ایف اے ٹی ایف کی ذیلی شاخ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اسی طرز کے ذیلی ادارے یورپ، جنوبی امریکہ اور دیگر خطوں میں بھی ہیں۔اے پی جی میں خطے کے مختلف ممالک شامل ہوتے ہیں جو ادارے کو وقتاً فوقتاً سفارشات دینے کے ساتھ ساتھ ان کو ایف اے ٹی ایف کی فہرست میں شامل ممالک کی پیشرفت سے متعلق آگاہ بھی کرتے ہیں۔یہی وہ مقام ہے جہاں بھارت پاکستان پر پابندیاں لگونے کی کوشش کر رہا ہے۔ کسی ملک کو انہانسڈ فالو اپ لسٹ میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کی مانیٹرنگ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کسی بھی ملک کی گرے لسٹ میں شمولیت کے بعد اس ملک کی پیشرفت غیر تسلی بخش ہونے پر مانیٹرنگ میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ انہانسڈ فالو اپ لسٹ سے معمولی مانیٹرنگ پر آ جائے اور ریگولر مانیٹرنگ پر جانے کے بعد اگلا مرحلہ گرے لسٹ سے باہر نکلنے کا ہو گا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس فہرست سے نکلنا اتنی جلدی اس لیے ممکن نہیں ہو سکے گا کیونکہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں کئی ماہ یا سال لگ سکتے ہیں۔تاہم اس فہرست سے نکلنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ لگانے کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو کوئی ملک قرضہ دے رہا ہے یا کاروبار کر رہا ہے تو وہ سود کی شرح زیادہ لگائے گا جس سے پاکستان پر معاشی بوجھ بڑھ جائے گا۔ اس وقت اس فہرست سے نکلنا پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔