عمر کا سفر کچھ ایسی شان سے رخصت ہوئے ہو دنیا سے فلک کے تارے تمہارے سفر پہ نازاں ہیں ’’شہید سر‘‘ بھی نصیبوں پہ ناز کرتی ہے ہوائیں اور بگولے بھی محوِ رقصاں ہیں تمہارے قدموں نے ریزہ کیا چٹانوں کو تمہارے عزم سے سنگِ گراں بھی لرزاں ہیں لہو سے اس طرح صح چمن کو سینچا ہے خزائیں اس طرف آنے سے بھی گریزاں ہیں بہت ہی اعلیٰ رفاقت تمہارا حق ٹھہری فلک نشیں بھی تیرے مرتبے پہ حیراں ہیں مقام بعدِ ازاں نبیّین و صدیقّین کہ صالحین بھی اس معرفت کو ترساں ہیں اچھوتا بابِ شجاعت کیا رقم تم نے زمین زادے تیری جراتوں پہ نازاں ہیں (آصف شہزاد)