آخر کو ’’فلاح انسانیت‘‘ بھی پابندی کی نذر ہوئی۔ ساتھ ہی مولانا مسعود اظہر کے صاحبزادے سمیت ان کے کچھ ساتھی بھی پکڑ لئے گئے۔اعلان مملکت کے داخلہ وزیر نے کیا۔ دو اڑھائی ماہ پہلے ان کی ایک ویڈیو آئی تھی جو کل سے پھر گردش کر رہی ہے۔ اس میں داخلہ وزیر فلاح انسانیت کے وفد سے فرما رہے ہیں کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہے‘ کوئی مائی کا لال آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا اور یہ ہمارے ایمان کی بات ہے۔ وفد نے ان سے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان پر پابندی لگائی جانے والی ہے۔ داخلہ وزیر اس خدشے کو رفع کر رہے تھے۔ خیر۔ کہا تو داخلہ وزیر نے ٹھیک ہی تھا۔ ان پر کسی نے آنکھ کہاں اٹھائی۔ ہاں قانون کا ہاتھ ان پر ضرور اٹھا۔ فلاح انسانیت سے جو ماجرا ہوا‘ اس پر ایک پرانی کہاوت یاد آئی کہ فلانا دوڑیا موت توں‘ موت اَگے کھڑی۔ یعنی کوئی صاحب موت سے ڈر کر جہاں پہنچے ‘ وہاں موت پہلے سے کھڑی تھی۔ مصلحت اور حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ بات مان لی جاتی چنانچہ مان لی گئی لیکن ہوا کیا…؟ پابندی گویا آٹھ چھ ماہ کے لئے ملتوی ہو گئی ٹلی نہیں اور ہونی ہو کر رہی۔ بھئی یہ تقدیر کا معاملہ یا ستاروں کا۔ ٭٭٭٭٭ داخلہ وزیر اور ان کے ساتھی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ جو لوگ پکڑے گئے ہیں ہم نے خود پکڑے ہیں۔ بھارت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بھارت نے جو ڈوزیئر ہمیں دیا تھا۔داخلہ وزیر نے ٹھیک فرمایا۔ جو پکڑے‘ کسی دبائو کے تحت پکڑے نہ کسی کی فرمائش پر‘ بھارتی ڈوزیئر میں بھی یہی نام تھے تو یہ محض اتفاق کی بات ہے اور زمانہ تو نام ہی اتفاقات کا ہے۔ ٭٭٭٭٭ مولانا مسعود اظہر کی گرفتاری تادم تحریر نہیں ہوئی تھی۔ سنا ہے کہ آج کل میں ہو جائے گی۔ کسی نے افواہ اڑائی کہ پکڑے نہ جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی نامعلوم مقام پر روپوش ہیں۔ یہ افواہ غلط ہے۔ ابھی پانچ دن ہی نہیں ہوئے کہ خارجہ وزیر نے کسی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ ہمارا مسعود اظہر سے رابطہ ہے۔ اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ پلوامہ کی ذمہ داری جیش والوں نے قبول کی۔ خارجہ وزیر کا کہنا تھا کہ ہمارا ان سے رابطہ ہے۔ وہ تردید کر رہے ہیں۔ لہٰذا’’نامعلوم‘‘ مقام والی بات تو درست ہو ہی نہیں سکتی۔ ہاں کچھ اور بات ہو تو الگ بات ہے۔ مثلاً گرفتاری کے وقت کی’’مہورت‘‘ ابھی طے نہ پائی ہو۔ بڑے کام’’مہورت‘‘ نکال کر ہی کئے جاتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مسعود اظہر سے یاد آیا کہ آج کل ان کی کسی کتاب کا چرچا ہے۔ کتاب دیکھی تو نہیں لیکن ایک چینل پر 35غیر ملکی اکائونٹس والے صاحب بتا رہے تھے کہ مولانا نے لکھا‘ ہم جہاد کشمیر غزوہ ہند کے حساب سے کر رہے ہیں۔ اگر انہوں نے ایسا ہی لکھا ہے تو یہ پٹی انہیں ضرور مولانا سرخ ٹوپ نے پڑھائی ہو گی۔ انہوں نے خود سے نہیں پڑھی ہوئی کیونکہ اگر خود سے پڑھتے تو یہ بات کبھی نہ کہتے۔ کیسے؟۔ ایسے کہ غزوہ ہند کی روایت کا تعلق آج کے زمانے سے ہے ہی نہیں۔ غزوہ ہند کی متعدد روایات ہیں اور علماء کے حدیث کی اکثریت انہیں صحیح مانتی ہے لیکن ایک تعداد علماء کی ایسی بھی ہے جو ان پر شبہ وارد کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان روایات کے راویوں میں کئی ایسے ہیں جن پر علم حدیث(اسماء الرجال) کی اصطلاحات مجہول‘ مدلس اور ضعیف موزوں بیٹھتی ہیں۔ یہ اقلیتی رائے ہے اور ہم عامیوں کی بحث کا میدان بھی نہیں کہ ہم یہ معاملات نہیں سمجھ سکتے لیکن ہم عامی جو بات آسانی سے سمجھ گئے ہیں کہ غزوہ ہند تب ہو گا جب دجال دنیا بھر میں اودھم مچا چکا ہو گا۔ کیونکہ روایات کے مطابق غزوہ ہند والا لشکر فتح کے بعد جب لوٹے گا تو اپنے درمیان حضرت مسیحؑ کو پائے گا اور سب جانتے ہیں کہ حضرت مسیح کی آمد سے پہلے دجال آ چکا ہو گا اور وسیع علاقے پر اس کا قبضہ بھی ہو چکا ہو گا۔ بشمول حجاز مقدس کے (ماسوائے مدینہ طیبہ) اس کی تاخت و تاراج کا سلسلہ حضرت مسیح سے مقابلے پر ختم ہو گا جس میں حضرت مسیح اس کا کام تمام کر دیں گے۔ گو یہ زمانہ دجال ہی کا چل رہا ہے اس کا نظام ہر جگہ بالادست ہے لیکن بذات خود وہ ابھی نہیں آیا اور اس کی آمد کے کچھ مدت تک آثار نظر نہیں آتے۔ چنانچہ ان دنوں ہونے والی کوئی بھی جنگ مقدس تو ہو سکتی ہے لیکن غزوہ ہند کیسے ہو سکتی ہے؟ ٭٭٭٭٭ پنجاب کے وزیر فیاض چوہان کو فارغ کر دیا گیا۔ وہ لطیفہ یاد آتا ہے جس میں ایک قبر کے کتبے کا ذکر تھا کہ یہاں فلاں صاحب کا لاڈلا خچر ابدی نیند سو رہا ہے جس نے زندگی میں اتنے افسروں ‘ اتنے ملازموں‘ اتنے راہگیروں کو دولتیاں ماریں۔ آخری دولتی ایک بم کو مار دی۔ وزیر موصوف اپنی خوش گفتاری کی وجہ سے بہت نیک نام تھے لیکن وجہ فراغت یہ خوش گفتاری نہیں بنی اور نہ ہی بن سکتی تھی کہ اگر خوش گفتاری ایسا جرم ہو کہ اس کی سزا فراغت کی صورت میں ملے تو قبلہ نور الحق قادری وزیر اور وزیر اعلیٰ کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کے سارے ہی وزیر‘ گورنر صدر وزیر اعظم اور ارکان اسمبلی فراغت نامے پا چکے ہوتے۔ وجہ ہندو برادری پر ان کا ’’جملہ‘‘ بنا جس نے شاہ معظم کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔ خوش گفتاری کی ’’ہلا شیری‘‘ تو بقول راویان صدق بیان اوپر سے ملتی تھی۔ وزیر کو تو ’’مہرا جیتا‘‘ کر نقد شاباشی بھی دی جاتی رہی۔