حال ہی میں امریکہ کی طاقتور یہودی لابی نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران ہی اپنا ایک اعلیٰ سطحٰ وفد ان ممالک کے دورہ پر بھیجا تھا، جہاں ان کو واضح طور پر بتایا گیا کہ مغربی کنارہ کو ضم کرنے کے پلان کے بعد وہ ٹرمپ کے پلان کو حمایت نہیں دے پائیں گے۔ اردن نے بھی خبردار کر دیا کہ نیتن یاہو کے منصوبہ سے خطے میں حالات انتہائی خراب ہوسکتے ہیں۔ ان ذرائع نے راقم کو بتایا کہ کوشنر فی الحال خلیجی ممالک کی ناراضگی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیونکہ ان ممالک میں اس کے کئی منصوبے پھنسے ہوئے ہیں۔ نیتن یاہو کا یک طرفہ پلان اس کے کئی منصوبو ں پر پانی پھیر سکتا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں متحدہ امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کا ایک مضمون اسرائیل کے ایک کثیر الاشاعت عبرانی روزنامہ میں شائع ہوا، جس کی سرخی ہی تھی کہ تعلقات کو معمول پر لانا اور فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی پالیسی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی ہے۔مگر امریکی سفیر فریڈمین کے مطابق یہ عرب ممالک کا وقتی ابال ہے اور اسرائیل سے زیادہ ،خطے میں اپنی اقتصادیات اور سلامتی کیلئے ان کو اسرائیل کی اشدضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے جب امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا اور ڈیل آف دی سینچر کو مشتہر کیا ، تو اس وقت بھی کچھ اسی طرح کے خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے۔ اسرائیل ، جہاں کبھی پانی اور تیل کا فقدان ہوتا تھا، اب خطے میں عرب ممالک کو پیچھے چھوڑ کر انرجی کا مرکز بننے والا ہے۔ پینے کے پانی کیلئے اردن ، اسرائیل پر منحصر ہے ۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے 85ملین کیوبک میٹر گیس فراہم ہورہی ہے جس سے اسرائیل سالانہ 19.5بلین ڈالر کماتا ہے۔ فریڈ مین اسرائیلیوں کو یہ بھی باور کرارہے ہیں کہ اگر ٹرمپ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں، تو ڈیموکرٹس کسی بھی صورت میں فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان کی حمایت نہیں کرینگے۔ دنیا بھر میں رہنے والے یہودی تارکین وطن ، جو ایک طرح سے اسرائیل کے بازو کے بطور کام کرتے ہیں، نیتن یاہو کے اس پلان سے خائف ہیں۔ اسرائیل میں جہاں اسوقت 6.8ملین یہودی رہتے ہیں، وہیں 7.2ملین یہودی دنیا کے دیگر 99ممالک میں آباد ہیں، جن میں 5.7ملین امریکہ کے شہری ہیں۔ یہودی تارکین وطن امریکہ میں ڈیموکریٹس اور یورپی ممالک کے رد عمل سے خائف ہیں۔ کئی یورپی ممالک نے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کی صورت میں اسرائیل کے خلاف پابندیا ں لگانے کی دھمکی دی ہے اور کئی یورپی پارلیمنٹوں نے اس کی منظوری بھی دی ہے۔ چونکہ اوسلو اکارڈ کے پیچھے پورپی ممالک کی کاوشیں کار فرما تھیں اور اس میں دو ریاستی فارمولہ کو تسلیم کیا گیا تھا، اس لئے یورپی ممالک اس کو دفن ہونا نہیں دینا چاہتے ہیں۔ تاہم اسرائیل کو یقین ہے کہ یورپی ممالک شاید ہی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا پائیں گے۔ اس صورت میں ان کوبراہ راست امریکہ سے ٹکر لینی پڑے گی۔ امریکہ کی 27ریاستوں نے ایسے قوانین پاس کئے ہیں، جن کی رو سے اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلانے والے اداروںو ممالک کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ نیتن یاہو اس وقت ایک مخلوط حکومت کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کے انتخابی حریف ریڈ اینڈ وائٹ پارٹی کے قائد بنی غانز جو اب اقتدار میں ان کے حلیف ہیں، فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ حکومت بناتے وقت طے پائے گئے معاہدے کی رو سے نیتن ہاہو کو اگلے سال وزارت عظمیٰ کی کرسی بنی غانز کیلئے خالی کرنی پڑے گی۔ مودی کی طرح نیتن یاہو بھی غیر روایتی اور خطرات مول لینے والے سیاستدان ہیں۔جس طرح انتہا پسند ہندوں کو مودی کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آتا ہے ، اسی طرح یہودی انتہا پسندو ں کیلئے بھی نیتن یاہو ایک عطیہ ہیں۔ فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے پلان پر بات چیت کرنے کیلئے حال ہی میں جب ایک امریکی یہودی وفد نیتن یاہو سے ملاقات کرنے ان کے دفتر پہنچا ،اور اس کے مضمرات پر ان کو آگاہ کروا رہا تھا، تو انہوں نے اپنے میز کی دراز سے ایک منقش بکس نکالا ۔ اس میں500 قبل مسیح زمانے کا ایک سکہ تھا، جو ان کے بقول مسجد اقصیٰ سے متصل کھدائی کے دوران اسرائیلی آثار قدیمہ کو ملا ہے اور اسپر عبرانی میں نیتن یاہو کھدا ہو ا تھا۔ اس سے انہوں نے یہ فال نکالی ہے کہ یہودیوں کو اعلیٰ مقام دلوانے اور اسرائیل کو مضبوط و مستحکم کروانے کی ذمہ داری ان پر خدا کی طرف سے عائد کی گئی ہے۔ مگر اسرائیل میں احتسابی عمل شاید بھارت سے زیادہ مضبوط ہے اور وہاں ابھی اپوزیشن اور دیگر ادارے حکومت کے ساتھ ٹکر لینے کی پوزیشن میں ہیں۔ اسکے علاوہ تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یہودیوںکو ادراک تو ہو گیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ اس کا اندازہ تو 1973ء کی جنگ مصر کے وقت ہو گیا تھا،مگر 2006ء میں جنگ لبنان اور 2014ء میں غزہ جنگ بعد یہ بات اور شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اسلئے دنیا بھر کے یہودی اور اسرائیل کے مقتدر طبقے چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اسکا وجود تسلیم کرایا جائے۔اسرائیل کی فوج اور دنیا بھر کے یہودیوں نے جس طرح نیتن یاہو کے پلان کے مضمرات کا ایک معروضی انداز میں جائزہ لیا ہے، وہ دنیا کی سب سے بڑی کہلانے والی جمہوریت، بھارت کیلئے ایک سبق ہے، جہاں کے اداروں کیلئے کشمیر ی عوام کے حقوق سلب کرنا اور پاکستان کے ساتھ دشمنی حب الوطنی ا ور نیشنلزم ثابت کرنے کاپہلا اور آخری ذریعہ بنا ہوا ہے۔