دانشوروںکے سنہرے اقوال کی مانند بعض تصویروں میںبھی اتنی گہرائی ہوتی ہے کہ دیکھنے والے کو بہت دیر تک سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔ایسی تصویروںپر اگر غور کیا جائے تویہ ایک طویل پس منظر کی حامل ہوتی ہیں ۔ اس وقت میری نظریںبھی ایک قابل غور تصویرپرجمی ہوئی ہے ۔یہ تصویر ایک چودہ سالہ فلسطینی محمدتمیمی بچے کی ہے جو اس وقت راملہ کے ہسپتال میں کومہ کی حالت میں محوِ خواب ہے۔ محمدتمیمی کو وقت کے غاصب اسرائیل سے نفرت کی اس سُلگتی چنگاری نے موت کی سرحد تک لایاہے جس نے اس کا نازک سینہ بے قرار کیاہواتھا۔ پچھلے دنوں محمد تمیمی کو درندہ صفت صیہونی فوجیوں نے بہت قریب سے اس کے پھول نماچہرے پرربڑکی زہریلی گولی سے اس وقت نشانہ بنایا جب وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے میں یروشلم فیصلہ کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک تھا۔ تمیمی کے چچازاد بھائی منال تمیمی کے مطابق گولی اس کی آنکھ کے نیچے لگی اور پھر اس کے چہرے سے نہ رکنے والا خون آنا شروع ہوا۔ محمد تمیمی کی طرح ہزاروں کی تعداد میں اور تمیمی بھی اسرائیلی افواج کی ایسی بربریت کے دوران یاتو شہید ہوئے ہیں یاپھر اپنے جسدوں کے جوارح سے محروم ہو گئے ہیںلیکن حریت کا مقدس نشہ ہے کہ پھر بھی اترنے کا نام نہیں لے رہا۔محمدمنال اور بلال دو اور فلسطینی بچے بھی اپنی توتیالی زبان سے شکایت کررہے ہیںکہ ’’ اسرائیلی فوج فلسطینی بچوں کے احتجاجی مظاہروں پر ہروقت ربڑ کی زہرآلود گولیاں چلاتی ہیں ۔ ان کا کہناتھاکہ یہ عیار فوجی ربڑکی ان گولیوں کو نقصان دہ نہیں مان رہے ، لیکن بات قطعاً ایسی نہیں ہے کیونکہ ان گولیوں سے بھی اکثر اوقات موت واقع ہوتی ہیــ‘‘۔ فلسطین کی حریت کیلئے شروع ہونے والی انتفاضوں اور جہادی تاریخ سے اگرہم مطلع ہونے کی کوشش بھی کریں تویہ جاننامشکل ہوگاکہ کتنے تمیمیوں نے اپنے لہو سے اس کازکو گلنار کیاہوگا۔ دسمبر1987میں فلسطین کے جبالیہ مہاجر کیمپ سے پہلی انتفاضہ کا آغاز ہوتاہے اور پھریہ برق رفتار آگ کی طرح مشرقی القدس، غزہ اور مغربی کنارے سمیت پورے فلسطین میں پھیل جاتی ہے۔ اس انتفاضہ کے دوران حریت کے شیدائی فلسطینیوں نے ہڑتالوں اور پرامن مظاہروں کے ذریعے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور فراعنہ وقت سے بغاوت کا عملی ثبوت دے دیا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس پرامن انتفاضہ کے دوران بھی پندرہ سو سے زیادہ فلسطینی شہید اور ایک لاکھ پچاس ہزار افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیاگیا۔صحافی رمزے بارعود اس وقت زندگی کی تیس بہاریں دیکھ چکے ہیں جن کی عمر پہلی انتفاضہ کے وقت بمشکل پندرہ برس تک پہنچی تھی۔ رمزے اس وقت کی انتفاضہ کے دوران اپنی ہمت بھری داستان کچھ یوںبیان کرتے ہیں ’’دسمبر میں جبالیہ کیمپ مہاجر کیمپ سے تیس سال قبل پھوٹنے والی انتفاضہ کے وقت میری عمر فقط پندرہ برس تھی۔میں مذکورہ کیمپ کے خالد بن ولید ہائی سکول کا طالبعلم تھا ۔ اسرائیلی قابض افواج کے خلاف باغیانہ ماضی کی تاریخ رقم کرنے والے میرے والد کی صحت اسی وقت جواب دے چکی تھی۔جبکہ میرے نانا انہی سالوں میں اپنے اُس خواب کے ساتھ اگلے جہاں کو سدھرگئے تھے کہ وہ ایک دن اپنے اُس گاوں کو واپس لوٹیں گے جسے اسرائیلی درندوں نے 1948ء میں ملیامٹ کردیا تھا۔میں اُس دن کو بھول نہیں سکتا جب میں نے پہلی مرتبہ اسرائیلی غاصب افواج کے خلاف لڑنے کا عزم کیا۔یہ نو دسمبر کی صبح تھی جب اسرائیلی فوجیں ہمارے کیمپ میں وارد ہوئیں۔ان میں سے کچھ پیدل جبکہ بہت سے فوجی جنگی گاڑیوں پر سوار تھے ۔اس سے پہلے کہ جھڑپیں رونما ہوجائیں، ہماری خواتیں ، بچوں اور معمر افراد کو کہا گیا کہ یہاں سے نکل جائیں۔اور پھر وہ گھڑی بھی آپہنچی جب میں ہاتھ میں پتھراٹھائے غاصبوں کے سامنے کھڑا تھا۔میرے ساتھ بچوں نے ان فوجیوں کی طرف پتھر پھینکنے شروع کیے تو میرا خوف بھی رفع ہونے لگا۔ میرے ایک ہاتھ میں اپنے سکول کی کتابوں کا ایک بھاری بستہ جبکہ دوسرے ہاتھ میں پتھر تھا۔ تکبیر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے میں نے پتھر کو ہدف کی طرف زور سے پھینک دیا۔ میرا یہ نشانہ اگرچہ خطا ہوگیاتھا لیکن باغیانہ جذبے نے مجھے ایک اور پتھر اٹھانے پر مجبور کیا۔ایک این جی اوکی سروے رپورٹ کے مطابق پچھلے دوسال میں فلسطینیوں کے قتل کے ایک سو پچاس ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جو اسرائیلی فورسز کیلئے کسی بھی قسم کے خطرے کا باعث نہیں بنے تھے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ دعویٰ بھی بجا ہے کہ صیہونی فورسز اب محض مفروضوں کی بنیاد پر فلسطینی بچوں کو گرفتار کررہی ہیں تاکہ اس صورت میں وہ آئندہ فلسطینی نسل میں خوف اور دہشت پیدا کرکے ان کی مزاحمت سے نپٹ سکیں۔ عالمی یوم حقوق اطفال کی مناسبت سے حال ہی میں جاری رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ اسرائیلی فوج رواں سال کے آغاز سے لے کر اب تک ایک سوپچاس فلسطینی بچوں کو حراست میں لے چکی ہے۔ان حراستی مراکز میں رکھنے کے دوران انہیں بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے اور اسی حالت میں زد وکوب اور تحقیر کا نشانہ بھی انہیں بنایا جاتاہے۔