قربانی دراصل اس تجدیدِ عہد کا نام ہے جس کی طرف قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ ایک بندہ مومن اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یوں ملتمس ہوتا ہے: ’’بے شک میری نماز اور میرا حج اور قربانی سمیت سب بندگی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ (الانعام 162) اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کا وہ راستہ دکھایا ہے جوایمانی ، روحانی ، معاشی ،معاشرتی سماجی اور اخروی حوالے سے نفع آفرین ہے۔ عید الاضحی آتی ہے تو دنیا بھر میں اہل اِسلام حضرت ابراہیم علیہ السلام ،ان کے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیدہ ہاجر ہ سلام اللہ علیہا کے عظیم جذبہ ایثار وقربانی کی یاد مناتے ہیں۔ اس گھرانے کے ہر فرد نے عملی طور پر ایثار کے پیکر میں ڈھل کرحکم ربانی کے سامنے سر جھکایا۔ اپنے انسانی جذبات کو اللہ کے حکم کی تعمیل میںرکاوٹ نہیں بننے دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مینارہ نور قائم کیا جو ہر سال مسلمانوں کو جھنجوڑ کر یہ کہتا ہے : دیکھو کہیں فانی دنیا کی فانی راحتوں میں گم نہ ہوجانا بلکہ اپنے رب کی رضا پر سب کچھ لٹا دینا، اسی صورت دونوں جہاں کی رحمتوں کو حاصل کرلو گے۔ یہ بات شعوری طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ قربانی کا مقصد فقط ایک رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک سہ روزہ تربیتی ورک شاپ ہے جو ہمیں ہر سال تسلیم و رضا ، ایثار اور قربانی کے ان جذبات سے آشنا کرواتی ہے جو ایمان کی معراج ہیں۔ آدابِ فرزندی سے سرشار عظیم باپ کے عظیم بیٹے نے اپنی گردن کسی تردد کے بغیر اللہ تعالی کے حکم کی تنفیذ کے لیے پیش کر دی۔۔۔ ایک ماں نے برسوں کی دعائوں، التجائوں اور مناجاتوں کے بعد حاصل ہونے والے اپنے نور ِ نظر کو بلند حوصلے کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کر دیا۔۔۔ ایک عظیم باپ نے کسی تردد کے بغیرپدری جذبات کو اللہ تعالی کے حکم پر قربان کرتے ہوئے تسلیم و رضا کی بلند ترین حدوں کو چھو لیا اور عملی طور پر اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی کوشش فرمائی۔ اللہ تعالی نے اپنے خلیل کو اپنے خاص لطف وکرم سے نوازنے کے لئے جس امتحان میں ڈالا تھا اس میںحضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نہیں ان کا پورا گھرانا ہی اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو گیا۔ قیامت تک حج کی سعادت پانے والے دنیا بھر کے مسلمان منی میں قربانی پیش کرتے ہوئے اس قربانی کی یاد مناتے رہیں گے ۔ عید الاضحی دلوں میں ایثار اور تسلیم ورضا کے چراغ جلاتی رہے گی۔ جس رب نے ہمیں قربانی کا حکم دیا ہے وہ جانوروں کی نسل کی بقا کا علم بھی رکھتا ہے اور اپنے بندوں کی فلاح و بہبود کو بھی خوب جانتا ہے۔ کسی کلمہ گو کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قربانی کے حوالے سے اپنے محدود اور تاریک ذہن کے خیالات کو خدمت ِ خلق کے تناظر میں زیادہ نفع آفرین گمان کرے۔ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم یاد تو اس عظیم قربانی کی منائیں مگر عملی طور ایثار کے راستے پر نہ چلیں۔ ہمارا یہ طرز عمل نہیں ہونا چاہئے کہ فقط جانور ذبح کردیں بلکہ قربانی کو وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں قربانی کا درس سارا سال پیش نظر رکھنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالی کی رضا حاصل کر سکیں۔ اگر اللہ تعالی نے ہمیں اعلی منصب عطا فرمایا ہے تو وہ منصب اقربا پروری اور ناجائز منفعت حاصل کرنے پر صرف نہ کریں بلکہ اللہ تعالی کی مخلوق کو راحت پہچاننے میں صرف کریں۔ نیز خلقِ خدا کی راحت کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیں۔ اپنی زبان یا قلم سے کسی ضرورت مند کو نفع دے نہیں سکتے ہیں تو اس ضرورت مند کی حسرتوں کاخون نہ نچوڑیں بلکہ اپنے اختیارات اور منصب کے ذریعے اس کے تن بدن میں خوشیاں دوڑا دیں۔ عید الاضحی اور انسانی خواہشات کی قربانی کے حوالے سے ذہن میں رکھنے والی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم قربانی کے جانور کا گلا توکاٹ دیتے ہیں مگر ہم اپنی خواہشات کے گلے پر چھری پھیرنا تو دور کی بات ہے چھری رکھنابھی گوارا نہیں کرتے۔ عید الاضحی آکر چلی جاتی ہے مگر ہمارے قلوب واذہان قربانی کے جذبوں سے خالی کے خالی ہوتے ہیں۔ ہم قربانی کے عمدہ جانور خریدتے ہیں تو دکھاوے کی دلدل میں الجھ جاتے ہیں یاان ناداروں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں جو نہ توقربانی کے لئے کوئی سستا سا جانور خرید سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی صاحب ثروت انسان انہیں قربانی کے گوشت میں سے ان کا اچھا حصہ دیتا ہے۔ اس پوری تفصیل سے اس امرکی نشاندہی ہوتی ہے کہ عیدالاضحی پرجانوروں کی قربانی پیش کئے جانے کے پس منظرمیں ایک مکمل فلسفہ ہے اوراسی فلسفے کے تحت یہ ایک مستقل واجب،عبادت اورشعائر اسلام میں سے ہے۔عیدالاضحی یاعید قربان کے تین دنوں میں جانور وں کی قربانی کر دینے سے بہتر کوئی عمل ایسا نہیں جو ابنِ آدم اللہ کی بارگاہ میں پیش کرسکے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے 10سالہ قیام میں ہر سال قربانی فرمائی۔اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ ہر عمل کے اپنے مخصوص ثمرات اور فیوض و برکات ہوتے ہیں جو قرب الہی کا ذریعہ بنتے ہیں مگر عید قربان میں قربانی کے عمل کو کیوں اللہ کے انتہائی قرب کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے؟ قربانی کا یہ عمل صرف جانور کو ذبح کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ گہرے اور دور رس اثرات (Implications) رکھتا ہے۔ جانور کے ذبح کرنے کے عمل کو قربانی سے اس لئے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ عمل بندے کو اللہ کے انتہائی قریب کردیتا ہے۔ لیکن اس میں قربانی کرنے والے بندے کا اخلاص ایک سوالیہ نشان کے طور پر سامنے آتا ہے۔ کیا وہ قربانی جو بندہ پیش کر رہا ہے اس سے اللہ کی بارگاہ سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے ہیں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا عمل ’’قربانی‘‘ اس کے لئے اللہ سے انتہائی قرب کا سبب قرار دیا جائے گا۔ گویا قربانی کی روح حقیقت میں اس قربانی کے پیچھے کار فرما ’’اخلاص‘‘ ہے۔