اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان ماضی کے مقابلے میں کافی تبدیل ہوچکے ہیں ۔ چھبیس برس پہلے والے طالبان اسباب کے بجائے صرف غیبی امداد پر یقین رکھتے تھے جبکہ ان میں سے اکثریت کو اب یقین ہوچکاہے کہ امورِ مملکت کو وسائل اور عمل ہی کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے۔ ماضی کے طالبان مغربی طاقتوں سے سفارتی تعلقات اور لین دین کو حرام سمجھتے تھے، کابل کے موجودہ طالبان حکمران اب اپنے نمبرون حریف امریکہ سے بھی خود کو تسلیم کروانے اور لین دین کرنے کیلئے منت ترلے کررہے ہیں۔ طالبان کے پچھلے دور حکومت میں داڑھی مونڈنا بڑے جرائم میں سے ایک تھا۔داڑھی نہ رکھنے والوں کو مارا پیٹا جاتا تھا لیکن اب کی بار امر بالمعروف ونہی عن المنکرکے اہلکار تبلیغی جماعت والوں کی طرح لوگوں کے سامنے محض داڑھی کے فضائل بیان کرکے اس کے رکھنے کی تلقین کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔ ماضی کے برعکس آج کے افغانستان میں مجرموں کو کھلے میدان میں سزا ئیں دینے کی ریت اب موقوف ہوچکی ہے،بالفرض اگرابتداء میں خال خال ایسی جزوی کوششیں ہوئی تھیں لیکن طالبان کے اعلیٰ حکام نے بعدمیں اس پر پابندی عائد کردی۔ماضی میں میوزک سننا بھی گناہ کبیرہ جیساجرم سمجھا جاتاتھا۔ عینی شاہدین بتارہے ہیں کہ ماضی کی امارت اسلامیہ میں موسیقی سننا اتنا برا سمجھاجاتاتھاکہ نہ صرف سننے والے گاڑی ڈرائیور کی پٹائی ہوتی تھی بلکہ ڈنڈہ بردار فورس گاڑی پر بھی ڈنڈے برسا تی تھی۔اسی حساب سے طالبان کے زیرانتظام پرانے افغانستان میں خواتین پرتعلیمی اداروں کے دروازے مکمل طور پر بند تھے جبکہ نئے افغانستان میں الحمدللہ یہ پابندی بھی ختم ہوچکی ہے۔ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر وائس آف امریکہ کی طرف سے ایک ویڈیو نظروں سے گزرا جس میں خوست میں دو مختلف مقامات پر بیک وقت پندرہ سو طلباء اور طالبات اپنے امتحانی پرچے حل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اسی نوعیت کی چند تصاویر بھی دیکھنے کو ملیں جہاں قندہار میں تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل طالبات ایک کانووکیشن میں اپنی اسناد وصول کررہی ہیں۔لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ طالبان مکمل طور پر اپنے نظام حکومت میں ، اپنے رویوں اور سوچ میں تبدیلی لاچکے ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان میں موجود قدامت پسند گروہ ( جس میں زیادہ تر بزرگ قدامت پسند علماء اور کٹر جنگجو لوگ شامل ہیں ) اب بھی زبردستی اور زورِ بازو پر یقین رکھتے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ تبدیلی لانے اور نظام کو نارمل انداز سے چلانے کا روادار ہے۔ثانی الذکرطبقے کے لوگوں کی اکثریت یا تو فطری طور پر لچکدار ہے یا پھر مختلف اسفار کے دوران جدید دور کے تقاضوں کو جان چکے ہیں۔ دو فکشنز ایک پیج پر ابھی تک نہیں آئے ہیں یوں اس اختلاف کی وجہ سے کہیں خواتین کے حجاب کے معاملے میں حد سے زیادہ سختی برتی جاتی ہے، کہیں موسیقی سننے والوں کو لتاڑا جاتاہے، کہیں حقیقی ملکی پرچم کو دکانوں سے اتارا جاتاہے اور کہیں پرانی عداوتوں کی بنیاد پر لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ملک عالمی تنہائی کے ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر بھی گوناگوں بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، پرچم،موسیقی اورحجاب جیسے سطحی اور ثانوی امور کو سنجیدہ لینے کے بجائے حکومت کو لچک دکھانی چاہیے ۔کسے معلوم نہیں کہ افغان خواتیں پہلے سے ہی شرعی پردہ کا اہتمام کرتی آئی ہیں،لہٰذاایسے میں ان کو سات پردوں میں خود کو اوڑھنے کامطالبہ ہرگزصحیح نہیںہے۔نظام مملکت کو چلانے کیلئے طالبان کو خود کو مکمل طور پر بدلنا انتہائی ناگزیر ہے۔ حکومت میں آئے دس ماہ کا عرصہ بیت چکاہے لیکن وہ بدستور عالمی تنہائی کا شکار ہیں ۔ اور تو اور، اُن تین اسلامی ملکوں(پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات) نے بھی طالبان حکومت سے سفارتی روابط استوار نہیں کیے ہیں جنہوں نے آج سے چھبیس برس قبل انہیں تسلیم کرکے کابل میں اپنے اپنے سفارت خانے کھول رکھے تھے۔ مکرر عرض ہے کہ طالبان نے خود کوبہرصورت تبدیل کرکے ایک پیج پرآنا ہے۔تبدیلی کا یہ کام انہیں نہ صرف مغربی دنیا کی تالیف قلب کیلئے کرنا چاہیے بلکہ جدید دور کے تقاضوں کے پیش نظر افغان قوم کے وسیع تر مفاد میں کرنا چاہیے۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے انہوں نے یقیناً مثبت اقدامات اٹھائے ہیں جو انتہائی قابل تحسین ہے ۔حال ہی میں ملک سے باہر بیٹھے ہوئے افغانوں کو ملک واپس آنے کی دعوتی کمیشن کی مہم ایک نہایت مثبت اقدام ہے جس کے مستقبل قریب میں دور رس نتائج سامنے آجائیں گے ۔ اس کمیشن کی کوششوں سے سابق حکومت میں وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری، بجلی محکمہ کے سابق چیئرمین امان اللہ غالب، امن شوریٰ کے سابق مشیرانتظار خادم ، ٹرانسپورٹ کے سابق وزیر حسن مبارک اور سابق حکومت میں پارلیمانی امور کے وزیر فاروق وردگ کے علاوہ کئی دیگر اہم شخصیات واپس آچکی ہیں ۔ان اہم شخصیات کی واپسی سے ایک طرف ریاست کو امور چلانے کیلئے رجالِ کار مل جائیں گے تو دوسری طرف ان بااثر افراد کی واپسی ملک سے باہر بیٹھے ہوئے بے شماردیگر افغانوں کیلئے بھی اپنے ہی ملک واپس آنے کی راہ ہموار کرسکتاہے۔