تو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا دل نے در کھول دیئے ہیں تری آسانی کو جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگِ غزل سعدؔ جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو آج موضوع بدلتے ہیں کہ شاید فضا بدلے۔ بہر حال بات کرتے ہیں تھوڑی سی آرٹ کی اور ادب کی۔ ایک زبان ہوتی ہے اور ایک زبان دانی۔ مگر سب سے زیادہ اہم وہ معنی و مفہوم ہوتا ہے جو زبان کے پیکر میں رکھا جاتا ہے۔ کالرج کا یہ کہنا بلا شبہ اہمیت کا حامل ہے کہ ڈکشن یعنی زبان اورکانٹینٹ یعنی مواد آپس میں ہم آہنگ ہو تو شاہکار تخلیق پاتا ہے۔ میں مگر کالم کو اس بحث سے ثقیل نہیں کرنا چاہتا کہ میں تو ہلکے پھلکے انداز میں کچھ عرض گزارنا چاہتا ہوں کہ ایک پوسٹ ہماری شاعرہ بشریٰ حزیں نے اپنی وال پر لگائی ہے کہ اس میں ایک حالیہ ڈرامہ کا ڈائیلا گ ہے ’’یہ ہے میری منجھلی بیٹی صبا، ایم بی اے کر رہی ہے اور پھر اس سے پوچھتی ہے کہ ’’گریجویٹ کرنے کے بعد کیا ارادہ ہے؟‘‘ آپ اس ڈائیلاگ کو ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ ڈی سی کی بیوی نے ایک پٹواری کی بیوی کو زرق برق لباس پہنے اور سونے میں لدے ہوئے دیکھا تو اپنے میاں سے پوچھا ’’جناب آپ پٹواری کب بنیں گے؟‘‘ اب اس میں ڈرامہ مصنف کی علمیت کا معاملہ ہے یا کیا ہے لیکن ایسی بونگیاں ڈراموں میں چلتی رہتی ہیں۔ ڈرامہ تو ڈرامہ ہوتا ہے حقیقت میں آپ کو ایسے کردار مل جائیں گے۔ مجھے یاد ہے ایک معصوم سی خاتون ہمارے گھر اپنی عیدی لینے آتی تھی۔ ایک روز میری والدہ نے اس سے اس کی ماں کے بابت پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ ’’اودیاں اکھّا رہ گئیاں نیں۔ بندہ وی نئیں پچھانیاں جاندا۔ ہن تے اوہدے کولوں سوئی وچ دھاگہ وی نہیں پیندا‘‘ ہم یہ سن کر بے اختیار ہنس دیئے۔ سیاست میں اسلم رئیسانی جیسے کتنے لوگ آپ کو مل جائیں گے۔ ہمارے ایک دستگیر صاحب ہی تھے جو 2اکتوبر کو بارہ کبوتر پڑھ گئے۔ خیر یہ تو بات طویل ہو جائے گی۔ ویسے ڈرامے کے پروڈیوسر کو چاہیے تھا کہ وہ نوٹس کرتا کہ ایم بی اے کے بعد گریجوایٹ نہیں ہوتا۔ خیر مسئلہ یہ ہے کہ اب پروڈیوسر بھی تو ویسے ہیں کہاں سے آئیں یاور حیات جیسے لوگ۔ خاص طور پر ڈرامہ میکنگ کی بھرمار میں پیسے والا پروڈیوسر ہے وگرنہ پروڈیوسر میں کئی خوبیاں ہوتی تھیں اس نے سکرپٹ بھی دیکھنا ہوتا تھا، اداکاروں کو بھی اور دوسرے کئی معاملات بھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ ’’کیپٹن آف دی شپ‘‘ ہوتا ہے۔ اتفاق ایسا کہ رات ہی معروف اداکار اور لیجنڈ شجاعت ہاشمی کا فون آیا اور لاک ڈائون کا تذکرہ ہونے لگا، پھر محترم ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کی بیماری کا کہ ان سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا۔ اللہ پاک ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے۔ باتوں باتوں میں پی ٹی وی کے زریں دور کی باتیں شروع ہو گئیں۔ مجھے بھی یاد تب ہم کالج میں تھے جب وارث چلتا تو مارکیٹیں بند ہو جاتیں۔ شجاعت ہاشمی اس میں مولاداد کا کردار ادا کر رہے تھے اور ایک جوان رعنا اپنی مونچھوں کو بل دیتے ہوئے اپنی بدن بولی سے بات سمجھاتا ہے۔ ہرکردار ہی کمال تھا۔ محبوب عالم نے چودھری حشمت کا ایسا کردار کیا کہ پھر وہ کوئی کردار ہی نہ کر سکا۔ خیر بات پھیل جائے گی۔ شجاعت ہاشمی نے ایک زبردست بات یاور حیات کے حوالے سے بتائی مگر اس سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ میں بھی یاور صاحب سے بہت متاثر تھا۔ ایک روز ڈرتے ڈرتے ان کے کمرے میں داخل ہوا۔ کہنے لگے ’’شاہ صاحب آپ ڈرامہ کیوں نہیں لکھتے‘‘ میں ان کے تخاطب پر حیران رہ گیا کہ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو آپ کو بڑا بنا دے۔ میں عزت افزائی پر خوش ہوا۔ کہنے لگے ’’کیوں نہیں لکھتے‘‘ میں نے سچ کہا، میں ڈرامے کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ فوراً بولے اپنے اس شعر پر لکھو: آیا جد میں لہر دے وچ کجھ وی نہ تکیا زہر دے وچ پنڈ دے پنڈ گواچے نیں کنّی بھیڑ اے شہر دے وچ آج تک ان کے الفاظ میرے کانوں میں گونجتے ہیں Loss of Identity پر لکھیں۔اب آتا ہوں میں شجاعت ہاشمی کی وہ باکمال بات پر جو پاور صاحب سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے نثار قادری کو پیسے دلوانے کے لیے ایک رول دیا کہ وہ ایک فریاد کے طور پر بادشاہ کے سامنے کھڑا ہے جب وہ سین آیا تو نثار قادری کو بہت چھوٹا ساکر کے دکھایا گیا۔ نثار قادری ناراض ہوئے کہ وہ تو سین میں نمایاں نہیں۔ یاور صاحب نے کہا ’’چن جی میں نے بادشاہ کے پوائنٹ آف ویو سے تمہیں شوٹ کیا‘‘ کیا کہنے یہ ہوتے ہیں پروڈیوسر۔ فریادی سے غالب کے دیوان کا پہلا شعر یاد آ گیا۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا اس کے بعد ہم نے یاور صاحب کی ایک اور مزیدار بات کا تذکرہ کیا کہ جب انہوں نے ایک شارٹ میں محسن شاہ صاحب المعروف ڈاکٹر ڈھکن کو لیا تو پری ویو میں بکری نظر آ رہی تھی اور محسن شاہ صاحب کے ڈائیلاگ سنائی دے رہے تھے۔ سید محسن شاہ نے کہا ’’سر یہ تو آپ نے زیادتی کی کہ مکالمے میرے اور چہرا بکری کا‘‘ یاور صاحب مخصوص انداز میں مسکرائے اور گویا ہوئے ’’چن جی! میں کیہہ کردا، بکری دے چہرے تو تہاڈے توں چنگے ’’تاثرات سن‘‘ یعنی بکری کے ایکس پرشن اچھے تھے۔ میرے معزز قارئین!واقعتاً وہ فن کا زریں دور تھا۔ لوگ اب بھی ہیں جو کمال کرتے ہیں مگرقحط الرجال ہے۔ مثلاً عرفان کھوسٹ کے بیٹے سرمد کھوسٹ جیسے بھی ہیں جو کامیابی کی دلیل ہیں۔ ایک اور بات مجھے شجاعت ہاشمی کے حوالے سے یاد آئی کہ منوبھائی کے ڈرامے میں جب ریکارڈنگ کی بجائے لائیو Live ڈرامہ ہوتا تھا۔ شجاعت ہاشمی کو اپنے منہ میں خون دکھانا تھا، مگر جس بوتل میں جعلی خون رکھا تھا وہ ادھر ادھر ہو گئی۔ شجاعت ہاشمی نے دانتوں کے نیچے ہونٹ دیا کر اصلی خون نکال دیا۔ اس کے بعد منو بھائی نے شجاعت کو گلے سے لگایا اور انہوں نے اپنے کالموں میں دو مرتبہ اس بات کا ذکر کیا۔ شجاعت ہاشمی بتانے لگے کہ انہیں پاگل کا کردار کرنا تھا تو وہ دو تین مرتبہ باقاعدہ پاگل خانے جا کر دیکھتے رہے۔ فن میں ہوم ورک کی بہت اہمیت ہے تبھی تو اصلی کا رنگ پیدا ہوتا ہے۔ لی جئیے بشریٰ حزیںکی اس پوسٹ کی وجہ سے ہم نے پورا کالم لکھ مارا۔ ویسے مجھے ایک اور بات یاد آئی کہ جو سیاست کے حوالے سے ہے اور بشریٰ حزیں خود بھی ایم پی اے اور پارلیمانی سیکرٹری رہ چکی ہے کہ ن لیگ کے ایک جعلی ڈگری والے ایم این اے نے بی اے کے بعد میٹرک کیا تھا۔ یعنی یہ بات اس کے کاغذات سے سامنے آئی تھی۔ پرویز مشرف کے دور میں جب بی اے کی شرط رکھی گئی تھی تو ایسے واقعات سامنے آئے تھے۔ تا ہم ڈرامے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔