ٹی ایس ایلیٹ نے بھی خوب کہا تھا کہ ہر لمحہ دوسرے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ کوئی ایسا خوشگوار لمحہ بھی آ جاتا ہے جس کے اردگرد کئی یادیں خوبصورت اور پھولدار بیلوں کی طرح لپٹی ہوتی ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ ذہن رسا جاگ اٹھتا ہے۔ حافظے کے پنجرے کے در کھلتے ہیں، طائر تخیل نکل کر محو پرواز ہو جاتا ہے۔ میں شام ڈھلے گھر آیا تو سامنے ڈائننگ ٹیبل پر دو بھاری بھرکم پارسل پڑے تھے۔ اٹھا کر دیکھے تو یہ ’’خصوصی ندیم صدی نمبر‘‘ تھا۔ میں نے سوچا کہ ہماری بہن ناہید قاسمی نے دو کاپیاں کیوں بھیج دیں۔ دیکھنے پر پتہ چلا کہ یہ دو جلدیں اسی خصوصی صدی نمبر کی ہیں۔ اتنی ضخیم جلدیں جو ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں، کم ہی دیکھنے میں آتی ہیں۔ وہی لمحے والی بات، کہ جلدوں کی ضخامت دیکھتے ہی مجھے وہ نشست یاد آ گئی کہ جس میں ہم احمد ندیم قاسمی کے ساتھ ان کے دفتر میں بیٹھے تھے اورقاسمی صاحب نہایت خوشگوار موڈ میں بتا رہے تھے کہ جب فنون کا سالنامہ آیا تو انہوں نے ابن انشا کو پیش کیا۔ تب فنون کا دفتر اوپر کی منزل میں تھا۔ ابن انشا نے کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کردیا۔ قاسمی صاحب نے ابن انشا سے کہا کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ ابن انشا فرمانے لگے کہ کوئی ریڑھا وغیرہ دیکھ رہا ہوں جس پر یہ ضخیم سالنامہ لادا جا سکے۔ تو میرے پیارے قارئین! ایسی سینکڑوں یادیں میرے دامن میں ہیں۔ مثلاً ایک دن کہنے لگے ’’لوجی ڈاکٹر نے ہمارا ایک گردہ نکال دیا ہے، اب ہم پر محاورہ فٹ آئے گا کہ یہ دل گردے والا آدمی ہے۔‘‘ یہ خصوصی ندیم صدی نمبر ایک خاصے کی چیز ہے۔ یہ سب احمد ندیم قاسمی کے نواسے اور ڈاکٹر ناہید قاسمی کے فرزند منیر حیات قاسمی کی صبح و مسا کی کوششوں اور محنتوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک پینوراما ہے اور ایک آئینہ خانہ اور ایک گلستان ہے۔ ایسی چیزیں سامنے آئیں کہ میں حیرت زدہ رہ گیا اور تو اور اس کے تصویری البم میں ایک عدد ہماری تصویر بھی جناب احمد ندیم قاسمی، مشتاق احمد یوسفی اور اختر حسین جعفری کے ہمراہ موجود۔ مزید یہ کہ احمد ندیم قاسمی پر لکھے گئے مضامین ہماری کاوش کو بھی جگہ دے دی گئی۔ کئی گوشے تو ششدر کر دینے والے ہیں۔ مثلاً وہ دو ترانے جو قاسمی صاحب پاکستان کے لیے لکھے وہ بہت عرصے کے بعد گھر کی پرانی اشیاء سے بازیاب ہوئے۔ 13 اور 14 اگست 1947ء کی درمیانی شب ریڈیو سے دو یادگار ملی نغمے گونجے۔ پہلے کا آغاز آپ بھی پڑھ لیں: اک مالا کے موتی ہیں ہم، ایک فلک کے تارے یک مقصد یک منزل ہیں اور یکجان ہیں سارے روحانی ایکے نے سنوارے بگڑے کام ہمارے ایک خدا ہے ایک نبیؐ ہے ایک اپنا قرآن زندہ باد پاکستان لکھنے کے لیے اتنا کچھ ہے کہ ایک کالم ناکافی ہے۔ اس نمبر کے آغاز میں حرف اول کے نام سے احمد ندیم قاسمی کے لکھے ہوئے اداریوں کاانتخاب ہے۔ پہلے شمارے کا اداریہ میں نے بھی پہلی مرتبہ پڑھا۔ یہ تحریریں سیکھنے کے لیے بھی پڑھنا ضروری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس نمبر سے گزرنا ادب کی تاریخ سے گزرنا ہے۔ ویسے بھی یہ ’’پوری صدی کا قصہ ہے، یہ نصف صدی کی بات نہیں‘‘۔ فنون کی تزئین و ترتیب سے مجھے قتیل شفائی کا شعر یاد آ گیا: اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا منیر حیات قاسمی نے بھی بہت بھرپور حرف ثانی لکھا ہے اور احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کا بہت عمدہ محاکمہ کیا ہے ان کی نثر میں فلسفیانہ رنگ اور انشائیہ دل کو لگتا ہے۔ محترمہ ناہید قاسمی نے بین السطور میں اپنی ذات کے حوالے سے بھی خوب لکھا ہے اور فنون کے ضمن میں قاسمی صاحب کے رویے کا بیان خوب کیا ہے کہ وہ نئے تخلیق کاروں کو کس طرح ترغیب دیتے تھے اور کتنی محبت سے ان کو اصلاح کرکے شائع کرتے تھے۔ بعض اوقات تو بڑوں کو بھی اشارتاً سمجھا دیتے تھے۔ ایک دلچسپ واقعہ یہ لکھا کہ ایک اچھے خاصے نامور آدمی نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’’سڑک کے دونوں اطراف میں گندم کے بڑے بڑے درخت نظر آ رہے تھے۔‘‘ قاسمی نے انہیں خط لکھا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے کبھی گندم کے پودے دیکھے ہی نہیں۔۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ قاسمی صاحب ایک زمانے میں فکاہیہ کالم بھی لکھا کرتے تھے۔ مجھے یہ بھی یاد آیا کہ ان مضامین پر مشتمل کتاب ’’کیسر کیاری‘‘ جناب احمد ندیم قاسمی مجھے بھی اپنے دستخطوں کے ساتھ عطا کی تھی۔ ان کی محبتوں کی نشانیاں تو ہمارا اعزاز ہے۔ ان کا دفتر تو جیسے ہماری پناہ گاہ تھی۔ ہائے ہائے کیسا انداز تھا ان کا۔ چائے اپنے ہاتھ سے پیش کرتے، ہمیشہ بسکٹ ساتھ ہوتے۔ پھر ان سب سے بڑھ کر جناب کی گفتگو ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘‘ پیدا کہاں ہیںایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی اب میں جب اس صدی نمبر کے البم میں تصویریں دیکھتا ہوں تو اکثر تصویریں بولنے لگتی ہیں۔ ان کی سالگرہ کی تقاریب تو گویا ادیبوں، شاعروں کا میلہ ہوتا تھا۔ وہ پیرزادہ تھے سون سکیسرکے گائوں انگہ کے۔ خوبصورت کتابی مسکراتا ہوا چہرہ۔ معصوم اس قدر تھے اپنی ناراضگی کو چھپانے پر ہرگز قادر نہیں تھے۔ جلد روٹھتے اور اس سے بھی پہلے مان جاتے۔ جو دل میں آتا کہہ دیتے۔ احمد فراز سے لے کر امجد اسلام امجد اور اختر حسین جعفری سے لے کر خالد احمد اور کاظم صاحب تک سب کے سب ہمارے سینئر اور بھرپور لوگ وہاں آ کر آسودگی محسوس کرتے۔ میرے معزز قارئین معاف کیجئے گا میں تو خصوصی ندیم صد نمبر پر لکھنے بیٹھا تھا اور درمیان میں یادوں نے بھٹکا دیا۔ یہاں میں احمد ندیم قاسمی کی فکر کے حوالے سے ایک بات ضرور کروں گا کہ وہ ولی غالب اور اقبال کے قائل تھے۔ ان کا اداریہ آپ ضرور پڑھیں۔ اسی بنیاد پر ان کی فکری اکائی جو عظمت انسان پر مدار کرتی ہے سامنے آتی ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ انہوں نے خدا سے مخاطب ہو کر کیا کہا ہے: تو وقت ہے، روح ہے، بقا ہے وہ حسن ہے، رنگ ہے، صدا ہے تو جیسا ازل میں تھا، سو اب ہے وہ ایک مسلسل ارتقا ہے ہر شے کی پلٹ رہا ہے کایا انسان عظیم ہے خدایا وہ کائنات اور انسان کے ساتھ خدا کو جوڑ کر مثلث بناتے ہیں۔ ان کو آقا ﷺ سے جو محبت اور مودت تھی اس کے حوالے میں ان کا ایک شعر ذہن میں اتر آیا: یہ کہیں خامیٔ ایماں ہی نہ ہو میں مدینے سے پلٹ آیا ہوں اس نمبر میں ایک بہت ہی اہم گوشہ جوکہ تشکیلی دور کی اہم یادگار ہے۔ وہ احمد ندیم قاسمی کے نام حسن عسکری کے 33 خطوط ہیں۔ نفیسہ کی ایک خوبصورت پینٹنگ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے جو قاسمی صاحب کے ایک شعر کی ایلسٹریشن ہے: تم میرے ارادوں کے ڈولتے ستاروں کو پاس کی خلائوں میں راستہ دکھاتے ہو انکے کلام کی پذیرائی کا حوالہ ان کی مشہور نظم ’’وطن کیلئے ایک دعا‘‘ تو اب پوری قوم کی دعا بن چکی ہے: خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو میرے کالم کا دامن سمٹتا جا رہا ہے۔ میں نے پسندیدہ نظم گو اور احمد ندیم قاسمی کے جان و جگر اختر حسین جعفری کی ایک نظم کی سطور سے کالم ختم کروں گا۔ یہ نظم قاسمی صاحب پر ہے: اور کسے ہے دھوپ کے دکھ پر فکر کی عادت بادل سے باتیں کرنیکا کس کو ایسا ڈھب آتا ہے دھوپ سخن ہے، ابر کہانی اور یہ آج کی شام سہانی شاخ آئندہ کے پھول یہ سبز دعائیں نادیدہ افلاک کے تارے، لفظ تمہارے کس کس ہاتھ نے تم پر وارے مشرق و غرب کے چڑھتے دن سے، ڈھلتی شام سے قاصد لائے بڑھتی عمروں کی خوشخبری، دائم حرفوں کا سندیسہ گردن اونچی رکھ درویشا