سرمایہ دارانہ دنیا کے بنائے ہوئے دانش وروں کا خیال ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ بالکل بوگس اور فلاپ شدہ ڈاکٹرائن ہے۔ یہ بنائی اس لیے گئی کہ جب عامیوں کا استحصال سے دم گھٹنے لگے تو الیکشن کے ذریعے پریشر ککرسے بھاپ نکال کر اسے دوبارہ آگ پر رکھ دیا جائے حکمران طبقات کے لیے نیا کڑاہی گوشت بننے کے لیے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے۔ مگر وہ ملک جسے پاکستان کہتے ہیں کا جی سنبھل نہیں رہا۔ بات بگڑ رہی ہے ۔ کیوں اور کیسے؟ اس کے لیے ایک پورا مقالہ درکا رہے مگر آج صرف اس دیگ سے ایک دانہ ہی۔ فواد چودھری جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے تو کسی کو انکار نہیں۔ بات چودھری صاحب نے صرف اتنی کی ہے کہ عمران خان کی لیڈر شپ میں کوئی کلام نہیں مگر ٹیم میں رولے ہیں۔ بلکہ رولے رپے ہیں۔ شاہ محمود، جہانگیر ترین اور اسد عمر کے مابین … کاش بات صرف اتنی ہوتی۔ آپ تحریک انصاف کے کسی ایم پی اے یا ایم این سے … یہاں تک کہ منسٹر سے بھی ذاتی گفتگو فرمالیں ’’ بس کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں‘‘ کا بیک گرائونڈ میوزک چلتا رہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ پرانے وزائے اعظموں کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ملاقات ہوجاتی تھی… اب وہ بھی ممکن نہیں۔ وزیراعظم ہائوس درخواست لے کر چلے جائو، وزیراعظم سے ملاقات کی درخواست کردو تو نہ کوئی بات سنتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ پنجاب کے اچھے اچھے وزیر زبان دانتوں تلے دبائے کبھی چیف منسٹر صاحب کی جانب دیکھتے ہیں… کبھی بیوروکریسی کی طرف، افسران مسکراتے ہیں اور زیر لب کہتے ہیں ’’ہور چوپو‘‘۔ پنجاب میں عثمان بزدار جو کچھ کررہے ہیں اس کا فیاض چوہان لاکھ دفاع کریں مگر زمینی حالات ایسے ہیں کہ لوگ پیچھے مڑ مڑ کر چودھری پرویز الٰہی اور شہباز شریف کی طرف دیکھتے ہیں۔ بیوروکریسی سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں اعظم سلیمان سے ڈر لگتا تھا مگر اب نہ تھپڑ سے ڈر لگتا ہے نہ پیار سے۔ عثمان بزدار جیسے تیسے اپنا چیف سیکرٹری لے آئے مگر سیاسی ڈائریکشن طے کیے بغیر بیوروکریٹ زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتا ہے۔ اس کی نہ اس کے لیے تربیت ہوئی ہے نہ مینڈیٹ۔اسلم اقبال اپنے جذبات چھپانے کے ماہر ہیں۔ مگر علیم خان کی ناراضگی عیاں ہے۔ فواد چودھری کہتے ہیں شہباز شریف نقوش مٹانے کے لیے ہمیں طاقتور خادم اعلیٰ درکار تھا۔ نتیجہ؟ پنجاب میں تحریک انصاف کا ورکر بھی اور لیڈر بھی سیاسی اعتبار سے خود کو یتیم تصور کرتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی خاموش ہیں اور عثمان بزدار بولتے نہیں۔ فواد سے پوچھا گیا آپ کیوں بولے؟ ان کا کہنا تھا کہ نہ تو میں نے اپنے علاقے میں DPO اور DCO کی پوسٹنگ کروانی ہے، نہ مجھے فنڈ ملنے ہیں نہ میں اپنی وزارت سے مال بنا رہا ہوں اور نہ میری چیف منسٹر تک رسائی ہے اور نہ ہی وزیراعظم ہائوس کے افسران ہماری بات اور زبان سے آشنا ہیں۔ گزر گیا وہ زمانہ کہیں تو کس سے کہیں۔ سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ ہر وزیراعظم کا ایک بیوروکریٹ پرنسپل سیکرٹری ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ کچھ سیاسی ایسوسی ایٹس بھی ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ سیاسی پرندے ہوتے ہیں اس لیے ووٹ اور حلقے کی سیاست کے مسائل سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہ سیاسی سیکرٹری پل ہوتا ہے اراکین اسمبلی اور وزیراعظم کے درمیان۔ میاں نواز شریف ہوں کہ بے نظیر، یوسف رضا گیلانی ہوں کہ آصف زرداری… وزیر اعظم ہائوس اور ایوانِ صدارت پر بیوروکریسی کا قبضہ ہوتا ہے۔ بیوروکریسی کی اونچی فصیلوں میں سیاسی مشیر راستہ بناتے ہیں، جائز شکایات کو دور کرنے کے لیے، اپنی ٹیم کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے۔ پتہ نہیں یہ تجربے کی کمی ہے یا بیوروکریسی کی عیاری کہ وزیراعظم کچھ اُلجھ سے گئے ہیں۔ کوئی خاتونِ اول کو ذمہ دار ٹھہرارہا ہے، کوئی اسد عمر کو اور کوئی اعظم خان کو جو بیوروکریسی کے بیرم خان ہیں اس وقت۔ پنجاب کے سیاست دانوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ پرائم منسٹر ہائوس پر ایک ہی صوبے کی بیوروکریسی غالب ہے۔ ماضی میں ہمیشہ پنجاب کی بیوروکریسی غالب رہی ہے اس لیے اسے تعصب نہیں البتہ تجربے کی کمی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ پنڈورا باکس اب ہی کیوں کھلا ہے؟ اس کی بے شمار وجوہات ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دل کا جانا ٹھہر گیاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ دل کو بھی پتہ ہے۔ فوری وجہ یہ بنی ہے کہ وزیراعظم صاحب اور سیاستدانوں اور اتحادیوں کے درمیان ایک سیاسی پل تھا۔ وہ ہر وقت وزیراعظم کے کیے ہوئے نقصانات کا ازالہ کرتا رہتا تھا۔ وہ اتحادیوں کو مناتا بھی تھا … انہیں حکومت سے نکلنے سے روکتا بھی تھا۔ ان کی جائز شکایات کا ازالہ بھی کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اس کی انویسٹمنٹ بھی تھی اور اس کے Stakes بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب میاں نواز شریف اور شہباز شریف احتساب کے ریڈار میں آئے تو خان صاحب سے بھی دو قربانیاں مانگی گئیں۔ خان صاحب نے پرویز خٹک کو بچالیا اور پنجاب سے دو قربانیاں پیش کردیں۔ جہانگیر ترین اور علیم خان … الیکشن سے لے کر حکومت بنوانے تک دونوں کا بڑا اہم کردار تھا۔ جہانگرین ترین چودھری برادران سے پرویز مشرف تک سب کے قریب رہے ہیں۔ اُن کی سپیڈ اور اُٹھان اتنی تھی کہ چودھری انہیں پرویز مشرف سے ملوا کر پچھتاتے تھے۔ چودھری برادران تو ہمایوں اختر سے بھی خوفزدہ تھے کہ جب طارق عزیز اور پرویز مشرف ہمایوں کو وزیراعظم بنانے لگے تو … بہرحال سیاست کو بددُعا ہے کہ اس کے سینے میں دِل نہیں ہوتا۔ یہ بڑی سنگ دل ہوتی ہے۔ خلافت عثمانیہ سے بنو عباس تک اور مغل بادشاہوں سے سلاطین دہلی تک اتنی بے رحمی اور شقی القلبی کہ تاریخ مسکراتی ہے اور پڑھنے والا دہشت زدہ رہ جاتا ہے۔