افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے لندن میں مقیم صحافیوں سے گفتگو میں ان سوالوں کے جواب دیئے ہیں جن میں فوج کی سیاسی و انتظامی امور میں مداخلت پر بات کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اس تاثر کی مکمل طور پر نفی کی کہ بدعنوان افراد کے خلاف جاری احتسابی عمل کے پیچھے فوج کا کوئی کردار ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جنرل پرویز مشرف کی سیاست کا فوج سے کوئی تعلق نہیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کی سرگرمیوں اور اس کی تحریک کی مالی امداد کرنے والوں کے بارے میں میجر جنرل آصف غفور نے بتایا کہ ریاستی ادارے ایسے کرداروں سے واقف ہیں۔ بعض صحافیوں نے 2018ء کے عام انتخابات کی شفافیت کے متعلق سوال کیا تو ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ 2018ء کے انتخابات تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے۔ ان انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگانے والے لوگ کوئی ایسا ثبوت پیش نہ کرسکے جس سے دھاندلی ثابت ہوتی ہو۔ ان کی طرف سے جمہوریت کے تسلسل کے لیے کام جاری رکھنے کا عزم ایک نئی صورت حال میں فوج کے پیشہ وارانہ کردار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ظاہر کیا گیا ہے۔ کسی زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں نوازشریف اور ایم کیو ایم کے بانی بیک وقت اس شہر کی رونق تھے۔ لندن شہر میں پاکستانی سیاستدانوں کی بڑی تعداد نے جائیدادیں اورکاروبار خرید رکھے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ذاتی کام کاج کے لیے جب برطانیہ کا رخ کرتے ہیں تو یہاں کے میڈیا کے سامنے پاکستان کی من چاہی تصویریں پیش کرتے ہیں ۔اسی رخ سے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستانی سیاست میں اپنے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے جلاوطن کارکنوں سے لے کر مسلم لیگ کے سرمایہ دار رہنمائوں تک نے ملک کے ریاستی اداروں کے متعلق ایک مخصوص تاثر پیدا کر رکھا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ سے جو سوال کئے گئے وہ قومی اداروں سے وابستہ صحافی بہت پہلے کر چکے ہیں۔ پاکستان کے صحافیوں کو یہ رعایت حاصل ہے کہ وہ ملک میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات کے چونکہ خودچشم دید گواہ ہوتے ہیں لہٰذا وہ سوالوں کے جوابات کا تجزیہ آسانی سے کرلیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد پاکستان ایک جمہوری دور میں داخل ہوا۔ یہ دور اس لحاظ سے کٹھن تھا کہ سول حکومت کو جمہوری استحکام کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسی خالصتاً فوجی نوعیت کی کارروائیوں کے متعلق فیصلے بھی کرنا تھے۔ پاکستان میں سیاسی کارکن عموماً دفاعی اور فوجی امور سے زیادہ باخبر نہیں ہوتے اس لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کی مشاورت سے کئی بار یوں معلوم ہوتا رہا گویا ہر طرح کے فیصلے فوج کی مرضی کے بغیر نہیں ہورہے۔ اس صورت حال نے سول ملٹری تعلقات میں خلیج وسیع کی لیکن اس بار قومی سطح پر یہ اتفاق رائے نظر آیا کہ جمہوری حکومتوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔ جہاں حکومت کو فوج کی مدد درکار ہو یہ تعاون فراہم کیا جائے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ گورننس، مستعدی اور سست روی جیسے مسائل تھے۔ میموگیٹ جیسے معاملات بھی سامنے آئے مگر حکومت نے اپنی مدت مکمل کی۔ 2013ء کے انتخابی نتائج نے مسلم لیگ ن کو کامیاب قرار دیا تو فوج نے کسی احتجاج یا حکومت مخالف مہم کی سرپرستی نہ کی۔ تحریک انصاف کے دھرنے، احتجاج اور دھاندلی کے خلاف تحقیقات کے امور سیاستدانوں نے مل کر طے کئے۔ ہاں جب کسی سیاسی رہنما نے آرمی چیف سے مدد طلب کی درپیش صورت حال میں ممکنہ بہترین مشورہ دے دیا گیا۔ میاں نوازشریف نے جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اختیارات بطور وزیراعظم استعمال کئے اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا آرمی چیف مقرر کیا۔ جنرل باجوہ کی شہرت ایک جمہوریت پسند فوجی افسر کے طور پر رہی ہے۔ اس دوران پاک امریکہ تعلقات اور پاک بھارت تعلقات میں کئی ایسی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں جن کا پاکستان پر اثر ناخوشگوار ثابت ہوا۔ سابق حکومت ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ خارجہ پالیسی ترتیب دینے میں ناکام رہی۔ ان کوتاہیوں کا خمیازہ ملک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس کے باوجود فوج نے سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر قومی مسائل کا حل تلاش کرنے کا کام جاری رکھا۔ 2018ء کے انتخابات کے نتائج عمومی جائزوں کے عین مطابق تھے۔ گزشتہ عام انتخابات اور اس کے بعد ضمنی انتخابات میں جس طرح ہر حلقے میں تحریک انصاف کے ووٹ مسلسل بڑھ رہے تھے اس سے اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ نئے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات ہیں۔ پاکستان کے عوام پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کووراثتی اور خاندانی جماعتیں سمجھ رہے ہیں۔ سیاسی شعور آنے سے عوام یہ جان چکے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب بالائی طبقات کی حکومت نہیں بلکہ تمام طبقات کو بااختیار بنانے والا نظام ہے۔ تحریک انصاف نے بائیس برس قبل جب اپنا منشور ترتیب دیا تو اس میں احتساب کے عمل کو نمایاں اہمیت دی۔ نئی حکومت نے اپنے سات ہفتے کے اقتدار میں ایسے کچھ کام کئے ہیں جن کو عوامی سطح پر سراہا جارہا ہے۔ بدعنوانوں اور قبضہ مافیا کے خلاف کارروائیاں عوام کا اعتماد حاصل کر رہی ہیں۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی قیادت منی لانڈرنگ کے الزامات کے نرغے میں ہے۔ آئے دن کسی مزدور یا ریڑھی بان کے نام پر کھلے بینک اکائونٹ میں اربوں روپے موجود ہونے کا انکشاف ہورہا ہے۔ یہ اکائونٹس کس نے کھلوائے اور ان سے کون فائدہ اٹھا رہا تھا اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ ماڈل ایان علی کے ایک اکائونٹ میں ایسے ہی پراسرار اکائونٹ سے رقم آنے جانے کے ثبوت تحقیقاتی اداروں کو حاصل ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف آشیانہ ہائوسنگ سکیم کا سکینڈل پوری جزئیات کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کا کردار واضح ہو چکا ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی کمپنی کو کس طرح غیرقانونی فائدہ پہنچایا گیا یہ اب راز نہیں رہا۔ بہت سے لوگ گرفتار ہو چکے ہیں، کچھ کے جلد گرفتار ہونے کا امکان ہے۔ مسلم لیگی سیاستدانوں یا پی پی رہنمائوں کے مالیاتی اور ضابطہ جاتی جرائم کی تفصیلات سامنے آنے کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سارے احتسابی عمل کو فوج کی کارروائی قرار دے کر اس کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی صحافیوں اور پاکستان کے امور میں دلچسپی رکھنے والے نمائندوں کے سامنے یہ بات خاصی دلچسپ صورت میں آ رہی ہے کہ پاکستان کی حکومتیں فوج پر مداخلت کا الزام لگانے کے باوجود اپنی مدت مکمل کر رہی ہیں۔ دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کی سیاسی سرگرمیوں سے فوج کے اظہار لاتعلقی سے معلوم ہوتا ہے کہ سول ملٹری تعلقات کو اب ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا جارہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اپنا نقطہ نظر اب بطور سیاستدان پیش کرتے ہیں۔ ان کی سرگرمیوں کو فوج کی مرضی سے منسلک کرنے سے کئی طرح کے شکوک جنم لے سکتے ہیں۔