بھارت کے خفیہ ادارے’’را‘‘کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کا جمود توڑنے کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو نئی دہلی مدعو کیا جائے۔ اے ایس دولت کے اس مشورہ پر ٹریک ٹو ڈپلومیسی سے منسلک حلقے سنجیدگی سے اپنا موقف دے رہے ہیں تاہم تادم تحریر پاک فوج یا حکومت پاکستان نے اس پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ ممکن ہے اس احتیاط کی ایک وجہ اس مشورے پر عمل کی صورت میں دنیا میں ابھرنے والے اس ممکنہ تاثر کو روکنا ہو جوفوج کوزیادہ طاقتور ظاہر کر کے اس کے متعلق منفی پروپیگنڈہ کو تیز کرتا ہے۔ اے ایس دولت نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران کہا کہ ’’ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہیں۔ رشتے اور رابطے منجمد اور امن کی کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت پرامید ہیں۔ دونوں کوریا اگر ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں اور صدر ٹرمپ کم جونگ ان سے بات کر سکتے ہیں تو ہمیں بھی سوچنا چاہیے۔ را کے سابق سربراہ نے دونوں ملکوں کے مابین فضائی پروازیں بڑھانے اور کرکٹ کے روابط فوری طور پر بحال کرنے پر بھی زور دیا۔ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت کے سابق خفیہ سربراہ نے پاکستان سے تعلقات کی بحالی کو ضروری قرار دیا ہو۔پاکستان میں بھی ریٹائرڈ فوجی افران کی تنظیم جنگ کے بجائے مذاکرات پر زور دیتی آئی ہے۔ دراصل یہ وہ احساس ہے جو خطے کی پسماندگی‘ افلاس اور محرومیوں کا تجزیہ کرنے کے بعد ہر صاحب شعور کو ہوتا ہے۔ ایکس سروس مین کی تنظیم ہو‘را اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہوں کا مشترکہ نکتہ نظر ہو یا سابق سفارت کاروں کی اجتماعی کوششیں ہوں معاملہ کئی طرح کی پیچیدگیوں کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ سب سے پہلی رکاوٹ تو خود وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی ہیں۔ پاکستان نے خطے میں امن کی بحالی اور ہمسایہ ملک کے طور پر جب کبھی بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی بھارت نے کوئی نہ کوئی نیا فتنہ کھڑا کر کے ایسی پیشرفت کو روک دیا۔ حالیہ دنوں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ممبئی حملوں کے متعلق پاکستان مخالف بیان جاری کیا۔ بھارت کے تزویراتی اتحادی امریکہ نے اس بیان کے بعد مخصوص پیرائے میں ممبئی حملے کے ملزمان آزاد پھرنے کی بات کی۔ بھارت نے پاکستان کے اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے متنازع کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کیا ہے۔ پاکستان کا اعتراض ہے کہ 1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے جہلم‘ چناب اور سندھ کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔ معاہدے کے مطابق بھارت تین مشرقی دریائوں راوی‘ ستلج اور بیاس کا پانی استعمال کر سکتا ہے۔ مغربی دریائوں کا پانی وہ صرف اس حد تک استعمال کر سکتا ہے جس سے دریائوں کے ایک خاص درجہ تک کے بہائو میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ کشن گنگا جہلم کا معاون دریا ہے۔ اس پر ڈیم بنانے سے دریائے جہلم کے بہائو میں کمی آئی ہے۔ یہی نہیں مشرقی دریائوں کے پانی کو استعمال کرتے وقت بھارت نے اس آبی حیات کی ضروریات تک کا خیال نہیں رکھا جو پانی نہ ملنے کی وجہ سے ختم ہو رہی ہے۔ بھارتی حکمت عملی کا محور پاکستان کے لیے سنگین خطرات پیدا کرنا ہیں۔ عالمی قوانین اور ضابطے جانداروں کے لیے خطرہ بننے والے اقدامات کی حمائت نہیں کرتے۔ یہ صرف بدلے ہوئے عالمی حالات میں بھارت اور امریکہ کے تعلقات ہیں جو بھارت کے ہر جارحانہ اقدام کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ بھارت کی حکمران جماعت میں وزیر اعظم سمیت بہت سی شخصیات پاکستان کا پانی بند کرنے کی حمائت کرتی رہی ہیں۔ اس صورت حال نے پاکستان میں بھارت کے متعلق غیر یقینی پن پیدا کیا ہے۔ گزشتہ برس امریکی خفیہ اداروں نے کانگرس کو خبردار کیا کہ بھارت سرحد پار مداخلت کا الزام لگا کر پاکستان کے خلاف جارحانہ کارروائی کر سکتا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر آئے روز شدید فائرنگ‘ توپ خانے اور مارٹر گولوں کا استعمال دونوں جوہری ممالک کے درمیان کسی بھی اچانک ہونے والے جھگڑے کو بڑہاوا دے سکتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل وینسٹ سٹورٹ نے سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا تھا کہ بھارت کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو سفارتی سطح پر الگ تھلگ کر دے۔ امریکی حکام نے بھارت کے جن مذموم ارادوں کے متعلق اپنی حکومت کو آگاہ کیا تھا وہ لائن آف کنٹرول پر آئے روز کی بلا جواز گولہ باری سے سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ بھارت کی کارروائیاں لائن آف کنٹرول تک محدود نہیں اب ورکنگ بائونڈری پر اس کی جارحیت کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ دو روز قبل سیالکوٹ کے سرحدی علاقے میں ماں اور دو بچے اس جارحیت کا تازہ نشانہ بنے ہیں۔ دراصل بھارت نے سرحدوں کو محفوظ بنانے کے نام پر ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری کے قریب آباد لوگوں کی زندگی خطرات کا شکار بنا دی ہے۔ وہ اچھے ہمسائے کے طور پر پاکستان سے تعلقات کی بحالی میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ بھارت نے صرف سرحدوں کو غیر محفوظ نہیں بنایا بلکہ وہ اپنی طاقت کو بڑھانے کے طمع میں خطے کی سلامتی کو دائو پر لگا رہا ہے۔ افغانستان میں پاکستان مخالف قوتوں کو منظم کرنے اور سرگرم کرنے میں بھارت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ایران کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ برادرانہ تعلقات رہے ہیں۔ بھارت نے پہلے ایران کو تجارتی شراکت دار بنایا پھر اس کو ایسے تزویراتی منصوبوں میں شریک کیا جس سے پاکستان کے مفادات متاثر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کی احتیاج کا فائدہ اٹھا کر بھارت ان کی سرزمین کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانا چاہتا ہے۔ جناب اے ایس دولت نے جس وقت اپنی حکومت کو پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدعو کرنے کی دعوت دی اس وقت ان کے پیش نظر آبی جارحیت‘ سرحدوں پر فائرنگ و گولہ باری‘ عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ اور پاکستان میں دہشت گردی کے منصوبوں میں بھارتی عمل دخل کی تفصیلات رہی ہوں گی۔ بھارت نے عالمی طاقت بننے کے جنون میں خطے کو جن خطرات کا شکار بنایا ہے یہ بھی کوئی راز نہیں رہا۔ امریکہ سمیت عالمی طاقتوں کے خفیہ ادارے اصل صورت حال اور بھارت کے عزائم سے واقف ہیں۔ جناب اے ایس دولت کے مشورے میں تھوڑی ترمیم کر لی جائے اور دونوں حکومتوں اور سکیورٹی اداروں کے درمیان رابطے بحال کرنے پر توجہ دی جائے تو تعلقات میں موجود کشیدگی کم ہو سکتی ہے۔ امن کے حامی بھارتی حلقوں کو اپنی داخلی سوچ کی طرف توجہ ضرور دینی چاہیے۔ بھارت ایک بہانے کے بعد دوسرا بہانہ بنا کر مذاکرات سے فرار اختیار کرتا رہا ہے۔ پاکستان اس عمل کی حمائت کرے گا کہ بھارتی حکومت سب سے پہلے تنازع کشمیر حل کرنے کا فیصلہ کرے ورنہ جو ملک اور اس کے امن پسند دانشور کئی برس گزرنے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ میچ کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ان کے مشوروں کو ہندو توا کے جنون میں گرفتار بھارتی حکومت کیا اہمیت دے گی۔