وہ دو اشخاص تھے جن کا قصہ کتاب صادق میں رب ذوالجلال نے بیان کیا۔ اس میں سے ایک کو اس نے انگور کے دو باغ عطا کئے تھے۔گہرے سبز،گھنے اور پھلوں سے لدے ہوئے۔یہی نہیں انہیں سیراب کرنے کے لئے نہر بھی جاری کردی وہ بھی آس پاس یا دائیں بائیں نہیں دونوں باغوں کے عین درمیان،تاکہ دونوں کو یکساں سیرابی حاصل ہو اور پانی کی دستیابی میں مشکل پیش نہ آئے۔موسم بھی موافق تھا اور تمام اسباب پورے تھے۔اس بار فصل شاید توقع سے بھی اچھی ہوئی ہو تبھی باغ کا مالک اس میں داخل ہوتے ہی چلا اٹھا:میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہوگا۔نہ ہی خیال کرتا ہوں کہ قیامت کبھی برپا ہوگی۔اگر ہوئی بھی تو امید ہے میرے لئے اس سے بھی اچھی جگہ مقدر ہوگی۔اس کے ساتھ جو دوسرا شخص تھا وہ گویا ہوا۔تم اس خدا سے کفر کرتے ہو جس نے تمہیں نطفے سے بھرپور مرد بنایا۔جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو ماشا اللہ کیوں نہ کہا ؟ممکن ہے میں جو مال واسباب میں تم سے کم تر ہوں خدا مجھے اس سے بھی بہتر باغ عنایت کرے اور تمہارے باغ پہ آسمان سے آفت نازل کرے، اس کی نہر کا پانی گہرا ہوجائے کہ تم اسے واپس نہ لاسکو۔اور یہی ہوا۔جب وہ باغ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ اس کا باغ اپنی چھتریوں پہ الٹا پڑا ہے۔ تمام اسباب کے ہوتے ہوئے باغ کیوں اجڑ جاتے ہیں۔قران اس کا جواب دیتا ہے لیکن ہم عالم اسباب میں اسباب کی پرستش کرنے والے لوگ ہیں۔میں نے اپنے کالم دنیائے اسباب میں انسان کی بے بسی میں ارسلان اور اے آر رحمان کی کہانی بیان کی تو میرا ای میل انباکس سوالات اور شکایات سے بھر گیا۔ کیا میں نے اے آر رحمان جیسے نابغہ روزگار موسیقار کی صلاحیتوں کی توہین کی تھی؟کیا اے آر رحمان نے اس مقام تک پہنچنے کے لئے رات دن محنت نہیں کی تھی؟کیا وہ اس شہرت و ناموری کا مستحق نہیں ہے؟تمام احتجاج بجا۔ تمام اعتراضات سر آنکھوں پر۔لیکن کیا ارسلان نے محنت نہیں کی؟کیا اس میں صلاحیت کی کمی تھی؟کیاوہ جان چرانے والا کاہل و کام چور تھا؟کیا اس نے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا؟کیا اس میں نظم و ضبط کا فقدان تھا؟کیا ایک کامیاب انسان ہونے کے تمام گروں سے وہ واقف نہیں تھا؟اس نے کامیاب انسانوں سے متعلق تمام مشہور کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ ان کے مصنفوں سے مل بھی چکا تھا۔دیکھا جائے تو اس کی زندگی میں اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے والے تمام اجزائے ترکیبی موجود تھے۔ اس کا بچپن آسودہ تھا۔ اس کے ماں باپ بھی تعلیم یافتہ تھے۔جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ اس کے والد بھی مقامی انجینئرنگ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔اسے اپنے گھر کی کفالت کم عمری میں نہیں کرنی پڑی۔اسے کبھی محنت مزدوری نہیں کرنی پڑی۔بفضل خدا اسے کبھی فاقوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔اسے کبھی فیس کی عدم دستیابی یا تعلیم میں عدم دلچسپی کے باعث اسکول سے نہیں نکالا گیا۔ اس کے برخلاف اس نے انٹرمیڈیٹ پری انجینئرنگ میں پوزیشن حاصل کی۔اس نے اپنی ذہانت کے بل بوتے پہ امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں کی اسکالرشپ حاصل کی۔اس کے باوجود وہ آج تک اپنے کیریئر کی اس بلندی پہ نہیں ہے جہاں اسے ان اجزائے ترکیبی کے ساتھ ہونا چاہئے تھا۔اس کے برعکس جس اے آر رحمان کا وہ ڈرائیور بنا اس کا بچپن ناآسودگی میں گزرا۔اسے کئی بار اسکول سے نکالا گیا۔اس کی زندگی میں ایک موقع آیا جب اسے اپنی مطلوبہ اسکالرشپ اور اپنے جنون میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ اس نے جنون کا انتخاب کیا اور کامیاب ہوگیا۔تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ درست وقت پہ درست فیصلہ کرنااور درست موقع کو بروقت جکڑ لینا ہی کامیابی کا راز ہے؟ پھر یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ درست لمحہ اور مناسب موقع ہے کونسا؟رچرڈ وائزمین کامیاب اور ناکام لوگوں پہ کئی سال کے تجربے کے بعد اس نتیجے پہ پہنچتا ہے کہ کامیاب لوگ درست مواقع کو ایک خاص جبلی صلاحیت کے بل بوتے پہ پہچان لیتے ہیں جو ناکام لوگوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ اس نتیجے کو وہ کامیابی کے ایک اصول کے طور پہ اپنی مشہور کتاب THE LUCK FACTOR میں بیان کرتا ہے اور یہ اصول باقی تمام اصولوں پہ حاوی نظر آتا ہے۔یعنی قسمت اور پیدائشی طور پہ ایسی صلاحیت سے باوصف ہونا جودرست موقع کو بروقت پہچان لے۔اسکی پریکٹس نہیں کی جاسکتی اور اسے عادت کی طرح اختیار نہیں کیا جاسکتا ورنہ سڑک کوٹنے والا مزدور اے آر رحمان سے زیادہ محنتی ہے اور دنیا نادر روزگار لیکن ناکام و نامراد لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ ہماری اسباب سے بھری دنیا میں جہاں اسی کی پرستش بھی کی جاتی ہے ، کامیابی کا تصور بھی دولت سے جڑا ہوا ہے۔ ایک شخص کی کامیابی کی کہانی بس اتنی ہے کہ وہ پیدا تو غریب اور بے نام ہوا تھا لیکن مرا تو اس کا جنازہ ایک دولتمند انسان کا جنازہ تھا۔کیا ہوا اگر ایک شخص گھر کے برتن بیچ کر گھروں پہ رنگ کرنے والا ایک معمولی مزدور ہوا کرتا تھا۔ آج وہ پاکستان کا سب سے بڑا تعمیراتی ٹائیکون ہے۔بے پناہ غربت سے بے پناہ دولت کا یہ سفر اس کی کامیابی ہے اور یہی ہمارا معیار بھی ہے ۔ دیکھا جائے تو کامیاب انسان وہ ہے جس نے اپنے اہداف کو حاصل کرلیا چاہے وہ دولت ہو یا شہرت۔کیا آپ نے غور کیا کہ تمام کامیاب افراد اپنی غربت اور ناکامیوں کے قصے بڑے فخر سے سناتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ بتا سکیں کہ کن مشکلات سے گزر کر وہ اپنی محنت کے بل بوتے پہ اس مقام تک پہنچے ہیں اور ان کی عزت میں اضافہ ہو۔اگر وہ کہیں ناکام رہ جاتے یعنی غریب کے غریب ہی رہتے تو یہ شان افروز قصے ، لعنت بن کر ان کی ناآسودہ تمناوں کا نوحہ بن کر رہ جاتے۔اچھی بات یہ ہے کہ تقریبا تمام کامیاب انسان،چاہے وہ خدا پہ ایمان رکھتے ہو ں یا نہیں،قسمت جیسی ایک شے کا اعتراف ضرور کرتے ہیں جس نے ان کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔اگر آپ کسی خدا کے وجود کے قائل نہیں ہیں توعالم اسباب میں آپ کی مایوسی یقینی ہے کیونکہ بیج بو کر پانی ڈالنے کا کام تو ہر کوئی کرلیتا ہے لیکن کونسا بیج بارآور ہوگا اور کونسا مٹی میں ہی دم توڑ دے گا یہ اختیار سے باہر کی بات ہے۔ایسے میں اس خدا پہ کیوں نہ پیار آئے جس نے فوز العظیم کا تصور دیا جو اس دنیا کی نہیں آخرت کی کامیابی ہے۔اس کاخاص پہلو یہ ہے کہ دنیا میں تو آپ کی کاوشیں تمام تر اسباب کی موجودگی میں ،بارآورنہیں بھی ہوتیں لیکن آخرت میں ہر کوشش و نیت کا اجر یقینی ہے اور اس کا کوئی تعلق آپ کی سماجی حیثیت،تعلقات عامہ،ذہانت اور رتبے سے نہیں ہے۔یہ ساری زندگی نیک اعمال کا ایسا نادر موقع ہے جسے پہچاننے کی کوشش نہیں کرنی پڑتی نہ ہی اس کے لئے کسی خداداد جبلت کی ضرورت ہے۔بس اس سے فائدہ اٹھانا انسان کی توفیق پہ منحصر ہے اور فوز العظیم اس کا مقدر۔