صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں ٹریفک جام معمول بن چکا ہے جس سے شہریوں کو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہونے سے اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے مفر نہیں کہ ٹریفک جام ترقی یافتہ ممالک میں بھی مسئلہ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ممالک میں حکومتیں شہریوں کی سہولت کے لیے متعدد اقدامات کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ماضی کی حکومتوں نے ٹریفک جام کے مسئلے کا حل انڈر پاسز نکالا اور یہ بھی درست ہے کہ سابق وزیراعلیٰ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے 88 دن ریکارڈ مدت میں انڈر پاسز مکمل کئے مگر منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ صوبائی حکومت میں جہاں انڈر پاسز اور فلائی اوور بنائے گئے ہیں وہاں بھی گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے۔ رہی سہی کسر ٹریفک پولیس کے ٹریفک کو ڈائیورٹ کرنے کے نت نئے تجربات نکال رہے ہیں اور اس کی مثال لاہور کے یتیم خانہ چوک میں ٹریفک پولیس کی جانب سے تین اطراف سے آنے والی ٹریفک کو ایک یوٹرن سے گزارنے کا کارنامہ ہے۔ اسی طرح کنال روڈ پرمتعدد انڈرپاسز کے باوجود دفتری اوقات کار میں ٹریفک بلاک ہونا معمول بن چکا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ انڈر پاسز اور یوٹرن ہونے کے باوجود ٹریفک سارجنٹ ٹریفک جام میں بے بسی کا نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ بہتر ہوگا حکومت بڑے شہروں بالخصوص صوبائی دارالحکومت میں ٹریفک لوڈ کے مطابق سڑکوں کی کشادگی اور بڑی گاڑیوں کے لیے ایک روٹ اور اوقات طے کرے تاکہ شہر میں ٹریفک کی روانی کو یقینی بنا کر شہریوں کو اذیت سے بچایا جا سکے۔