احتساب کرنے والوں کا احتساب کون کرے گا؟ نیب کو کوئی چیک کر رہا ہے یا نہیں؟ ایف آئی اے کے اوپر کون ہے؟ آڈیٹر جنرل کا آڈٹ وزارت خزانہ نے کرنا ہوتا تھا۔ آخری مرتبہ کب ہوا؟ 2000ء کے ایکٹ کے بعد وزارت خزانہ بھی اس کام سے فارغ ہو چکی۔ پولیس کے تھانوں میں کبھی کسی نے جا کر پڑتال کی ہے کہ کتنی شکایتیں، کتنی فریادیں، کتنی ایف آئی آر درج ہوئیں، ان پر کیا کام ہوا، ان کا کیا انجام ہوا۔ اتنے عرصہ میں کتنے سائل آئے؟ ایک ادارہ ایسا بھی ہے جو ان سب سے اوپر ہے۔ یہ آل اِ ن ون ہے۔ یہ سب سے زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ ہے صحافت اور الیکٹرانک میڈیا۔ یہ ہیں کالم نگار اور اینکر پرسن۔ یہ نیب کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ پولیس گردی کا محاسبہ بھی کرتے ہیں۔ ایف آئی اے کا تیا پانچہ بھی کرتے ہیں اور آڈیٹر جنرل کا کچا چٹھہ بھی کھولتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ان صحافیوں کا، ان کالم نگاروں کا، ان اینکر حضرات اور اینکر خواتین کا حساب کتاب کون کرتا ہے؟ اس ملک میں سب کا تعاقب کیا گیا۔ سب کے پیچھے ڈھول باندھا گیا۔ سیاست دان سب سے زیادہ چھانے اور ٹٹولے گئے۔ جرنیلوں کے خلاف ایکشن ہوا یا نہیں، حساب کتاب سب کا کھول کر رکھ دیا گیا۔ ٹیلی ویژن سکرین پر وہ ان سارے مقدموں کی تفصیل دکھائی جا رہی تھی جو نیب نے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر گول کردیئے۔ بیوروکریٹ بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اثاثوں کی ایک ایک تفصیل شائع ہو چکی ہے۔ تاجروں کو بھی پکڑا جا رہا ہے۔ مگر اینکر حضرات کی، کالم نگاروں کی اور صحافیوں کی چھان بین کوئی نہیں کرتا؟ ان کے اثاثوں اور آمدنی کے نسبت تناسب کو آخر کون ظاہر کرے گا؟ افسوس! صد افسوس! یہ اینکر پرسن، یہ صحافی، اپنے پیٹی بند بھائیوں کا احتساب نہیں کرتے۔ یہ بھی تو دولت کے انبار اکٹھے کر چکے ہیں؟ یہ انبار کہاں سے آئے ہیں، ان کے بھی محلات ہیں۔ بیرون ملک جائیدادیں ہیں، بینک اکائونٹس ہیں مگر ان کے سارے گناہوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اس لیے کہ سب کا احتساب ہوتا ہے، ان کا نہیں ہوتا۔ ایک بڑے بزنس ٹائیکون کے حوالے سے ایک فہرست وائرل ہوتی رہی جس میں ایک ایک تفصیل درج تھی۔ یہ آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ دیکھی جا سکتی ہے۔ کس کو اس ٹائیکون نے کتنی رقم دی۔ کتنے ہوائی ٹکٹ دیئے۔ کتنے مکان کتنے پلاٹ دیئے، کہاں کہاں دیئے، گاڑیاں کون کون سی دیں، یہاں تک کہ بینک اکائونٹس بھی نمبر وار بتا دیئے گئے۔ نام بھی سب کو معلوم ہیں مگر یہ اینکر حضرات اتنے ’’دیانت دار‘‘ ہیں کہ یہ فہرست اور ایسی کئی فہرستیں پی گئے۔ کھا گئے، ڈکار تک نہیں لیا۔ نہ کسی نے تردید کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ خلق خدا کو معلوم ہے کون کون فروخت ہوا۔ کب فروخت ہوا۔ کس منڈی میں بولی لگی۔ کوئی شروع میں، کوئی درمیان میں، کوئی آخر میں کھیت ہوا۔ عمران خان کے دھرنے کے دوران اینکر شپ کے بڑے بڑے عالی شان برج دھڑام سے گرے اور گرتے ہی گئے۔ آج لوگ انہیں سنتے ضرور ہیں مگر سنتے ہوئے ناک سکوڑتے ہیں، زیرلب بڑ بڑاتے ہیں۔ دشنام طرازی کرتے ہیں۔ بددعائیں دیتے ہیں۔ سیاست دانوں کے لیے لوٹے کی اصطلاح تراشی گئی۔ انہیں گھوڑے کہا گیا۔ یہی کچھ اینکروں اور صحافیوں نے کیا۔ کل جس کے مشیر تھے، آج اس کے خلاف زمین آسمان کی شہادتیں جمع کر کے دکھا رہے ہیں۔ کل جس کے دفاع میں دو جمع دو کو پانچ ثابت کر رہے تھے، آج اس کے پرخچے اڑا رہے ہیں۔ کل دست سوال جاتی امرا کے سامنے دراز تھا، آج بنی گالا کے دروازے پر پھیلا ہے۔ کل جن سے مناصب لیے، سربراہیاں طشت میں سجی ہوئی، وصول کیں، خلعتیں پہنیں، آج ان کے بدن سے کپڑے کیا، کھال تک اتار رہے ہیں۔ یہی کام سیاست دان کرتے ہیں تو ان کازن بچہ کولہو میں پس جاتا ہے مگر اینکر حضرات اپنے بہن بھائیوں کا نام تک نہیں لیتے۔ کتنی بڑی ناانصافی ہے، کتنا ظلم ہے، کھلم کھلا طرف داری، کاں، کاواں دے، تے بھرا بھراواں دے۔ کوّے کوّوں کے ساتھی اور بھائی بھائیوں کے۔ اینکر اینکروں کے، کالم نگار کالم نگاروں کے اور صحافی صحافیوں کے۔ واہ، کیا عدل ہے۔ کیسی زنجیر ہے جو دوسروں کے معاملے میں تو آپ فریادی بن کر کھینچیں مگر جب آپ کی اپنی باری آئے تو آپ جہانگیر بن بیٹھیں۔ حالی نے مسلمانوں کی حالت زار پر گریہ کیا تھا ؎ کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے یہی حالت میڈیا کے ناخدائوں کی ہوگئی ہے۔ سیاست دان مال بنائے تو کرپٹ۔ وفاداری بدلے تو لوٹا، بیوروکریٹ، جرنیل، تاجر، ڈاکٹر، وکیل، جج، سب اپنے محاسبے کے لیے تیار ہیں، یہ محاسبہ کون کرے گا؟ میڈیا! اور میڈیا کا محاسبہ؟ کوئی نہیں۔ کس میں اتنی جرأت ہے کہ چوں بھی کرے۔ ویسے میڈیا اور کالم نگاری کے ان نابغوں کو بھی داد دینی چاہیے جو کسی نہ کسی شاہی خاندان سے وابستہ ہیں یا رہے ہیں۔ کرپشن یا رول آف لا کی ساری زندگی بات نہیں کی۔ بس یہ حساب کتاب کرتے رہے کہ بلاول کی حکمرانی کتنی دور ہے۔ مریم نواز کے علاوہ اور کوئی جوہر قابل موجود ہی نہیں۔ حمزہ شہبازکو اب اقتدار مل جانا چاہیے۔ عدلیہ نے کچھ لٹیروں پر ہاتھ ڈالا تو خاندانوں کے ان غلاموں نے عدالتی مارشل کی دہائی دینا شروع کی اور وہ شور مچایا کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ رول آف لاء اور کرپشن۔ یوں بھی اس کا فرض کفایہ رئوف کلاسرہ اور عامر متین ہی ادا کر رہے ہیں۔ کوہ قاف سے اڑ کر آنے والے طلسمی طائر منقار زیر پر ہیں۔ کچھ اس فکر میں ہیں کہ باڑ کس طرح اور کب پھلانگیں۔ مسلم لیگ نون کی قصیدہ خوانیوں کا باب بند کر رہے ہیں اور سامنے، باڑ کے اس پار، تحریک انصاف کی ہری بھری چراگاہوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ جس طرح ایک شے فکری دیانتداری (Intellectual Honesty) ہے اور فکری بددیانتی۔ اسی طرح فکری شجرہ نسب بھی ہوتا ہے، ضرورت پڑے تو تبدیل کرلیتے ہیں۔