القدس اور غزہ میںفلسطینیوں پرظلم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔اسرائیل نے درندگی اور سفاکی کی بھیانک مثال قائم کی ہے، اس کے فوٹیج دیکھ کر آدمی کا دل دہل جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں جہاں انسانی حقوق کے نعرے ہر طرف گونجتے ہیں، وہاں کسی قوم پر یوں بے شرمی اور ڈھٹائی سے حملے کئے جائیں گے، دیکھ کر یقین نہیں آتا۔ کشمیری اور فلسطینی دو ایسی مظلوم قومیں ہیں جو مسلسل ظلم سہہ رہی ہیں اور اس کے باوجود ان کے جذبہ حریت اور ہار نہ ماننے کی قوت حیران کن ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگ جو فلسطینیوں سے ہزاروں میل دور بیٹھے ہیں، جسمانی طور پر ان کی مدد کو نہیں پہنچ سکتے، یہاں بیٹھے ہم ان کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ میرا خیال ہے سب سے پہلے تو ہمیں دو نکات کے حوالے سے یکسو ہوجانا چاہیے۔ ہمیںسمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیل اور ظالم اور غاصب ریاست ہے اور اسے عالمی قوانین، اخلاقیات، انسانیت سمیت کسی بھی اعلیٰ انسانی قدر کا کوئی لحاظ نہیں۔ اسرائیل سے کسی اچھائی کی توقع نہیں رکھی جاسکتی اور اس سے خوش گمانی رکھنا ایسے ہی ہے کہ خونخوار بھیڑیے سے امید کی جائے کہ وہ بھیڑ کے ننھے بچے کو اس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر چھوڑ دے گا۔ یہ پرلے درجے کی سادہ لوحی، حماقت اور عاقبت نااندیشی ہے۔ ہمارے ہاں ایک حلقہ پچھلے چند ماہ میں بار بار یہ بات کہتا رہا کہ پاکستان کو اسرائیل سے تعلقات استوار کر لینے چاہئیں۔چند ایک پاپولر کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کر کے ہم مسئلہ فلسطین کے لئے اس پر اثرانداز ہونے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ یہ اندازہ غلط تھا اور وقت نے بڑی قلیل مدت میں اسے باطل ثابت کر دیا۔ متحدہ عرب امارات، بحرین، اومان وغیرہ نے بھی یہی دلائل دئیے تھے۔ اب یہ سب شرمندگی سے منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔ وہاں کے عوام میں اسرائیل کی جارحیت اور معصوم فلسطینیوں پر وحشیانہ بمباری کے باعث شدید نفرت موجود ہے ، عرب حکومتوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کیا جائے؟یہ ممالک اسرائیل سے جدید ٹیکنالوجی کے حصول اور مالی مفادات کی امید لگائے بیٹھے تھے۔وہ پوری نہیں ہوئی ۔ ان کا خیال تھا کہ اسرائیل اب مسئلہ فلسطین حل کرنے کی طرف پیش رفت کرے گا۔ اسرائیلیوں نے ان کی اس بچکانہ سوچ کو اپنی قتل وغارت سے غلط ثابت کر دیا۔ پاکستانیوں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسرائیل غاصب ریاست ہے اور جب تک وہ اپنا ظلم اور ناجائز قبضہ ختم نہیں کرتا، اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کا مقدمہ قانونی اور تکنیکی اعتبار سے کچھ مختلف ہوسکتا ہے، مگر مظلومیت اور اخلاقی حوالے سے دونوں کیسز ایک سے ہیں۔ دونوں میں ناجائز قابض ممالک پوری بے حیائی سے جارحیت پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ہتھیار کے ذریعے ان ظالموں کو نہیں روک سکتے تو کم ازکم اخلاقی بنیادوں پر تو بھرپور انداز سے مظلوموں کو سپورٹ کریں۔ عالمی قوانین اور سفارتی تقاضوں کے تحت جو کچھ ہم کر سکتے ہیں ہمیں کرنا چاہیے ۔ دوسرا نکتہ جو کم اہم نہیں، وہ پاکستانی عوام خاص کر نئی نسل کو فلسطینیوں کا مقدمہ سمجھانے کا ہے۔ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی نام نہاد آئن سٹائن، نیوٹن، برٹرینڈرسل اور نیلسن منڈیلا کسی فیس بک وال پر جنم لیتا رہتا ہے۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک عامیانہ سا جملہ اکثر بولا جاتا ہے،چونکہ وہ حقیقت پر مبنی ہے، اس لئے اسے نقل کیا جا سکتا ہے کہ جسے گھر میں کھانے کے وقت کوئی اضافی روٹی دینا گوارا نہیں کرتا، وہ اٹھ کر فیس بک پر دانشوری جھاڑنے لگ جاتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ بھانت بھانت کی تحریریں پڑھ کر بہت سے نوجوان کنفیوز ہوجاتے ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ یہ ایشو ہے کیا اور اس پر کیا موقف اپنانا چاہیے۔ اہل علم کو اس حوالے سے کام کرنا چاہیے۔ جہاں عالمانہ انداز میں مسئلہ فلسطین اورحالیہ بحران پر کتابیں ، پمفلٹ ، ڈیجیٹل کتابیں یا پی ڈی ایف شکل میں مربوط تحریریں لکھی جانی چاہئیں ،وہاں عام قارئین کے لئے عام فہم انداز میں بھی بات سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ برادرم آصف محمود کالم نگار ہونے کے ساتھ قانونی ماہر بھی ہیں، پچھلے سال انہوں نے مسئلہ کشمیر کے قانونی پہلوئوں پر ایک نہایت مفید کتاب تحریر کی۔ وہ مسئلہ فلسطین پر بھی خاصا لکھ چکے ہیں، اسے کتابی شکل میں تیار کرنے پر غور کرر ہے ہیں۔ آصف محمود کو ایسا ضرور کرنا چاہیے بلکہ کتاب چھاپنے کے ساتھ اسے ڈیجیٹل کتاب کی شکل میں بھی لانا چاہیے کہ اسے پھیلانا آسان ہوجاتا ہے۔ کالم لکھنے سے پہلے یہی گزارش میں نے ممتاز قانونی ماہر اور استاد ڈاکٹر مشتاق خان صاحب سے بھی کی۔ ڈاکٹر مشتاق بلند پایہ سکالر ہیں، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں قانون پڑھاتے ہیں، شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر رہے ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، وہ یہ کام عمدگی سے کر سکتے ہیں۔ان شااللہ ایک دو دنوں میں ان کی چند منتخب تحریروں پر مشتمل پی ڈی ایف کتاب وجود میں آ جائے گی۔اللہ نے چاہا تو اسے پھیلانے میں اپنا حصہ ڈالیں گے۔ یہ کام اور لوگوں کو بھی کرنا چاہیے۔ اسلامی تحریکوں سے وابستہ افراد خاص طور پر یہ کام کر سکتے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب کا قائم کردہ ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اور دیگر تھنک ٹینک اور جامعات کو اس حوالے سے قدم اٹھانا چاہیے۔ پنجاب یونیورسٹی اور دیگر بڑی جامعات کو اپنے اساتذہ اور ریسرچ سکالرز کے ذریعے اس پرکام کرانا چاہیے۔ آج کے دور میں علمی کام کے لئے بڑے شہرمیں مقیم ہونا بھی ضروری نہیں۔ کسی دور افتادہ چھوٹے شہر میں بیٹھا کوئی محنتی نوجوان بھی ضروری تحقیق اور مطالعے کے بعد یہ کام کر سکتا ہے۔ چند صفحات پر مشتمل ڈیجیٹل بک یا بک لٹ تو نہایت آسانی سے لکھااور تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ کم اہم کام نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچانے کے لئے چڑیا کا اپنی چونچ میں پانی لا کر بجھانے کی کوشش کے بارے میں قصہ ہر ایک نے سنا ہوگا۔ ہم سب اپنی بساط اور استعداد کے مطابق کوشش کرنے کے مکلف ہیں۔ جو کام ہم کر سکتے ہیں، وہ ضرور کر گزرنا چاہیے۔ رب کریم مظلوم فلسطینیوں کی زندگی آسان کرے گا، آزادی کی تحریکیں کبھی عشروں بلکہ صدیوں تک چلتی ہیں۔ موقف اہم ہوتا ہے، اس پر حوصلے سے سٹینڈ لینا چاہیے،تب مشکل وقت گزرجاتے ہیں، حالات بدل جاتے ہیں۔ الخدمت پاکستان کے سربراہ عبدالشکور صاحب سماجی کاموں میں ازحد مصروف رہتے ہیں، ان کا بیدار اور مستعد ذہن اہم قومی، ملی معاملات میں سوچ بچار کرتارہتا ہے۔ پیرانہ سالی کے باوجود وہ بڑے محنتی اوران تھک انسان ہیں۔ان کی جانب سے کچھ نہ کچھ مفید تحریریں، تجاویز موصول ہوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے واٹس ایپ پرچند تجاویز شیئر کیں۔ عبدالشکور صاحب لکھتے ہیںـ:’’ اس لمبی جنگ کے لئے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اسلامی تحریکوں اور فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے والی مملکتوں کو درج ذیل نکات اپنے پیشِ نظر رکھنے چاہئیں۔ 1) وہ جہاں جہاں بھی ہیں، فلسطین ایشو پراپنی باہمْ الجھنے سے بچیں۔صبر اور حکمت سے سیاسی جماعتوں ،پریشر گروپس اور میڈیا کے ساتھ یکسوئی اور یکجہتی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ تنہا فلائٹ لینے کا کبھی نہ سوچیں, چاہے عارضی فائدہ ہی ضائع ہوتاکیوں نہ نظر آئے۔ 2) نوجوان نسل اور اہل دانش میںنئے حقائق اور دلائل پر مبنی آگہی مہم چلاتے رہیں۔لوگوں کو پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے وافر ذہنی غذا پہنچاتے رہیں، تاکہ لوگوں میں حوصلہ اور ہمت بھی موجود رہے اور حقائق سے پوری طرح آگہی بھی۔ 3) مسلم جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ ان سارے طبقات ( سٹیک ہولڈرز) سے مضبوط روابط اور تعلق رکھیں، جو انسانی حقوق اور نسلی تعصب کے خاتمے کے لئے فلسطینیوں کی جد وجہد کے حامی ہیں۔ اْنہیں بلایا جائے، اْن کے پاس جایا جائے، انہیں سنا جائے اور انہیں سنایا جائے۔ یاد رہے نبی پاک ﷺنے اس طرح کے مشکل حالات میں بار ہا کامیاب اتحاد (الائینس) بنائے تھے۔ 4) فلسطینی متحرک نوجوانوں کو فلسطین سے باہر (یورپ، ترکی،ملائیشیا، پاکستان اور امریکا) پناہ دلوائی جائے اور ان کی تعلیم اور تربیت کا اہتمام کروایا جائے تاکہ اگلی دہائی میں انکی مستقبل کی لیڈرشپ تیار ہو سکے۔ اس کام کے لئے ہمدرد ممالک اور تنظیمیں مشترکہ فنڈ بھی قائم کر سکتی ہیں۔ 5) امریکہ اور یورپ میں موجود مسلم اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مدد اور اعتماد دیا جائے۔ اب تو امریکی ایوانِ نمائندگان میں بھی فلسطینیوں کے لئے آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ الغرض اس مسئلے کے حل میں ان سارے پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھا جائے، ان سے جْڑے حقائق کو سمجھنے اور اس سے وابستہ تمام طبقوں کو ہم آواز کرکے آگے بڑھنے کی صورت نکالی جائے۔اس یقین کے ساتھ کہ اللہ کامیابی و نصرت کی صورت ضرور نکالے گا۔‘‘