ہر روز ایک نیا لطیفہ ایک تازہ ترین مضحکہ خیزی ‘ حکومت کی طرف سے عوام کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے تاکہ مہنگائی سے دلبرداشتہ امیدوں کے سراب میں بھٹکتے ہوئے پاکستانیوں کے لئے تفنن طبع کا سلسلہ بنا رہے۔ پاکستانی ماشاء اللہ سے سخت جان قوم ہیں اور مزاح کا عمدہ ذوق رکھتے ہیں۔ مسائل کے گرداب سے لطیفے بنانا اور اپنی تکلیفوں میں مزاح کے پہلو تلاش کرنا تو شاید ان پر ختم ہے۔ ڈالر اڑان پر اڑان بھرے جاتا ہے اور روپیہ بے چارہ اپنی بے قدری پر ہر روز مزید شرمندہ ہوتا گھٹتا چلا جاتا ہے۔ مہنگائی ہے کہ موئی‘ آسمان سے باتیں کیا ملاقاتیں کرتی پھرتی ہے اور عام متوسط پاکستانی کی زندگی کی کشتی مہنگائی کے اس گرداب میں ہچکولے کھاتی پھرتی ہے۔ تبدیلی سرکار سے لگائے گئے امیدوں کے محل شکست و ریخت سے دوچار ہیں۔ ایسے میں کپتان کی آواز سنائی دیتی ہے گھبرانا نہیں میرے پاکستانیو! پہلے اس آواز سے پاکستانیوں کو اپنے حالات بدلنے کی تحریک ملتی تھی اور انہیں یقین آتا تھا کہ اس تاریک سرنگ کے اگلے سرے پر روشن دن اور کھلا آسمان ہے لیکن اب خان کے اس انقلابی تحریک دیتے جملے پر لطیفہ بازی ہو رہی ہے کہ کپتان اگر اجازت دے تو اب کچھ گھبرا نا شروع کرلیں’’تبدیلی کی امید لگائے لوگوں نے شاید کہیں تسلیم کر لیا ہے کہ حالات بدلنے کی جو غیر حقیقی امیدیں انہوں نے وابستہ کر رکھی تھیں ان کا پورا ہونا ایسے ہی ہے جیسے لیموں کا درخت لگا کر اس پرسیب کا پھل آنے کی توقع باندھ لی جائے۔ ان حالات میں بھی جب توقعات پوری نہ ہو رہی ہوں۔ وعدے جھوٹے اور دعوے کھوکھلے نکلیں اور تبدیلی کا جو خواب دکھایا گیا تھا وہ بس کنٹینر پر لگائی گئی ایک بڑھک نکلے۔ ہماری پاکستانی قوم حالات کی اس گھمبیرتا میں بھی اپنے حال دل پر ہنسنے کا موقع خوب نکالتی ہے۔ خدا لگتی کہوں تو حکومت بھی اس معاملے میں بھر پور تعاون کرتی دکھائی دیتی ہے یوں اگر خدا جھوٹ نہ بلوائے تو روز نہ سہی مگر چند روز کے وقفے سے ہی کوئی نہ کوئی مضحکہ خیزی اہل اقتدار سے ایسی سرزد ہوتی ہے کہ کئی روز اس مضحکہ خیزی سے لطف اندوز ہونے‘ اس پر بنائے گئے لطیفوں کی پوسٹیں پڑھنے اور دوستوں کو آگے فارورڈ کرنے میں گزر جاتے۔ تاآنکہ حکومت کا ایک نیا کارنامہ سامنے آ جاتا ہے۔ آغاز میں ہی وزیر اعظم نے مرغیوں ‘انڈوں ‘بھینسوں اور کٹوں کی باتیں کرنا شروع کر دیں اس وقت جب پاکستانی انتظار میں تھے کہ تبدیلی کا خواب دکھانے والے کپتان کسی نئی اور آئوٹ آف دی باکس معاشی پالیسی کا اعلان کریں گے تاکہ پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالا جا سکے۔ اس وقت وزیر اعظم نے کٹوں اور انڈوں کا تذکرہ کر کے عجیب مضحکہ خیز ماحول پیدا کر دیا۔ پھر آغاز ہی میں وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں بیچ کر پاکستان کو اقتصادی بدحالی سے نکالنے کا انقلابی قدم اٹھایا گیا۔ اس پر خوب خوب لطیفے گھڑے گئے۔ وزیر اعظم چونکہ لکھی ہوئی تقریر پڑھنے سے گریز کرتے ہیں سو فی البدیہہ تقریر میں ایسے ایسے ’’گھپلے‘‘ ہو جاتے ہیں جن سے نقص امن کا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے پھر وضاحتیں بھی آتی ہیں اور ان پر خوب لطیفہ بازی بھی ہوتی ہے۔ کبھی وزیر اعظم روحانیت کو رحونیت کہہ جاتے ہیں اور رحونیت کو سائنس قرار دے دیتے ہیں۔ اگلے روز ان کے سائنس کے وزیر ایک اینکر کے سامنے بیٹھے وزیر اعظم کے ان عزائم اور خیالات سے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے لاتعلقی کا اظہار کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں ہمیشہ سے ہی دو عیدیں منائی جاتی رہی ہیں، آدھا خیبر پختونخواہ ہمیشہ سے ہی ایک روز پہلے عید منانے کا عادی رہا ہے۔ لیکن ایسا صرف اس حکومت میں ہوا 28 روزوں کے بعد ہی عید منا لی گئی۔ پوری دنیا میں شاید ایسا کہیں بھی نہیں ہوا کہ سرکاری اعلان کے ساتھ 28 روزوں کے بعد عیدالفطر منائی گئی ہو اور پھر یہ بھی کہا گیا کہ اس عظیم الشان انقلابی فیصلے کو وزیر اعظم کی تائید حاصل تھی۔ اب کفارہ ادا کرنے کی ترکیبیں سوچی جا رہی ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم لکھی ہوئی تقریر کرنے کے عادی نہیں ہیں مان لیا لیکن اتنا تو کریں کہ بیرونی دوروں پرجائیں تو اس حوالے سے اپنی تیاری مکمل کر کے جائیں۔ ایسی مضحکہ خیزیاں اپنے ملک میں تو چل جاتی ہیں لیکن جہاں دنیا بھر کے سیاسی رہنما موجود ہوں وہاں جغرافیائی اور تاریخی حوالوں سے غلط بیانی بہت خفت کا باعث بنتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے جاپان اورجرمنی کی سرحدیں ملا کر پاکستانی قوم کو ایسی خفت سے دوچار کیا۔ کئی روز تو سوشل میڈیا پر اسی بات کا مذاق بنتا رہا۔ تازہ ترین واقعہ آدھی رات کو ایک عدد تقریر جھاڑنے کا ہے۔ ایسی کوئی ایمرجنسی نہ تھی کہ رات کے اس پہر وزیر اعظم قوم سے خطاب فرماتے اور خطاب بھی کم و بیش وہی کنٹینر والا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا میں کوئی نئی بات نہ تھی سوائے گزشتہ دس برس کے قرضوں پر ایک قومی کمیشن بنانے کی ہے اور اس کا اعلان بھی جس انداز میں کیا گیا جو الفاظ استعمال کئے گئے اس میں انتقامی جذبات کا عنصر غالب دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعظم کے چہرے پر اور آواز میں شدید غصہ اور تنائو سب کو محسوس ہوا۔ وزیر اعظم جس عہدے پر موجود ہیں اس کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے اندر کے جذبات کا اس طرح برملا اظہار کرنے سے گریزکریں ۔ سخت سے سخت بات بھی شائستہ لہجے میں کہی جا سکتی ہے۔ انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ اپنی تقریر اور گفتگو میں وہ ایسا لب و لہجہ اختیار نہ کریں جس پر ان کی ذاتی نفرت پرخاش اور انتقام کا گمان ہو۔ ’’وزیر اعظم صرف پی ٹی آئی کے چاہنے والوں کے وزیر اعظم نہیں۔ وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں اور اسی حوالے سے انہیں اپنے رویے اور لب و لہجے میں تہذیب و شائستگی اختیار کرنی چاہیے۔کاش کہ کوئی ایسا شخص جس کی بات پر وہ کان دھرتے ہیں انہیں یہ سب سمجھا سکے۔ فی البدیہہ تقریر سے گریز کریں اور بیرونی دوروں پر مکمل تیاری کے ساتھ جائیں! تاکہ لطیفوں اور مضحکہ خیزیوں میں کچھ تو وقفہ آ سکے!!