اُردو میں تفریحی ادب کے ایک قابلِ قدر نمائندے شوکت تھانوی، ملٹری ،میڈیکل اور مزاح میںبیک وقت دھاک بٹھانے والے ہمارے اس جرنیل، ڈاکٹر اور ہر دل عزیز فن کار کی بابت لکھتے ہیں:’’ادب اور فوج، تھرما میٹر اور وردی، ذوقِ سلیم اور کورٹ مارشل، مزاحِ لطیف اور کوئک مارچ … اور مجھے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ایک میز پر قلم، ریوالور اور تھرما میٹر، تین مختلف چیزیں رکھی ہوئی ہیں۔ ان تینوں کو اگر طبِ یونانی کے ماہروںکی اصطلاح میں ’سائیدہ حل کردہ‘ کی کیفیات سے گزارا جائے تو یہ تینوں مل کر ایک شفیق الرحمن پیدا کر دیں گی۔‘‘ ہمارا یہ دل فریب مزاح نگار جسے بلا شبہ اردو میں تفریحی ادب کا مین آف دی میچ قرار دیا جا سکتا ہے،۹نومبر ۱۹۲۰ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع روہتک کے ایک قصبے کلانور کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوا۔ابتدا میں فارسی عربی اور اردو املا گھر میں سلیقہ شعار والدہ سے، پرائمری انھی کے بقول: ’’ مَیں کلانور کے ٹاٹ مدرسوں میںرانگڑ بچوں کے ساتھ، الف آم، ب بلی ، کرتا رہا ہوں۔‘‘ چھٹی جماعت میں صادق ڈین ہائی سکول بہاولپور آ گئے، جہاں معروف مزاح نگار محمد خالد اختر کے کلاس فیلو رہے۔ میڈیکل کی تعلیم کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور سے حاصل کی۔ ۱۹۴۲ء کا سال ان کی زندگی کا بہترین سال ثابت ہوا۔ اسی سال انھوں نے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کیا، میو ہسپتال میں چند ماہ ہاؤس جاب کرنے کے بعداسی سال انڈین میڈیکل سروس جوائن کی اور اسی خوش قسمت سال میں ان کے رومانوی افسانوں کا پہلا مجموعہ ’کرنیں‘ منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد تو برِصغیر بھر میں ان کی شگفتہ تحریروں کی دھاک بیٹھ گئی۔ اوپر تلے شگوفے (۱۹۴۳ئ) لہریں (۱۹۴۳ئ) مدوجزر(۱۹۴۴ئ) پرواز (۱۹۴۵ئ) پچھتاوے(۱۹۴۶ئ) حماقتیں (۱۹۴۷ئ) مزید حماقتیں ۱۹۵۴ئ) انسانی تماشا (۱۹۵۶ئ) دجلہ (۱۹۸۰ئ) اور دریچے (۱۹۸۹ئ) آتے چلے گئے۔ستر کی دہائی میں ہلالِ امتیاز کے تمغے سے نوازے گئے، اور ستمبر ۱۹۷۹ء کو پاک بحریہ سے سرجن ریئر ایڈمرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ۱۳ دسمبر ۱۹۸۰ء سے ۹ دسمبر ۱۹۸۶ء تک اکادمی ادبیات پاکستان کے پہلے چیئر مین رہے۔ ۱۹ مارچ۲۰۰۰ء کو اناسی سال، آٹھ ماہ اور دس دن کی عمر میں ہمارا یہ مزاح نگار راہیِ ملکِ عدم ہوا۔ موجودہ اعصاب شکن ماحول میں ہم اسی مزاح نگار کے اقتباسات سے ان کے لیے ایصالِ ثواب اور اپنے قارئین کے لیے ’ایصالِ سواد ‘ کا اہتمام کرتے ہیں۔ ٭ جانتے ہو عورت کی عمر کے چھے حصے ہوتے ہیں: بچی … لڑکی … نو عمر خاتون… پھر نو عمر خاتون… پھر نو عمر خاتون… پھر نو عمر خاتون۔٭ شادی کے لیے صرف دو کی ضرورت ہوتی ہے: ایک نو عمر لڑکی … اور ایک بے صبر ماں۔٭ بزرگوں نے میری آیندہ تعلیم کے متعلق تصفیہ کرنا چاہا کہ مَیں انجنئیرنگ پڑھوںیا قانون؟دادا جان نے فرمایا کہ بچہ خود اپنی پسند بتائے گا ۔ انھوں نے میری نرس آیا کے ایک ہاتھ میں ترازو دی اور دوسرے ہاتھ میں انجنیئروں کا آلہ ، اور مجھے کہا : جو پسند ہے ،چُن لو ۔ مَیں کچھ دیر سوچتا رہا… بڑے غور و خوض کے بعد جانتے ہو مَیں نے کیا کیا؟ مَیں نے نہایت لاجواب انتخاب کیا… مَیں نے نرس کو چُن لیا۔ ٭سُستی کی یہ حالت تھی کہ سال میں صرف ایک بار دعا مانگتا تھا اور ہر رات ایضاً کہہ کر سو جاتا۔‘‘٭ لوگ پوچھتے ہیں کہ بلیاں اتنی مغرور اور خود غرض کیوں ہوتی ہیں؟ مَیں پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کو محنت کیے بغیر ایسی مرغن غذا ملتی رہے ، جس میں پروٹین اور وٹامن ضرورت سے زیادہ ہوں تو آپ کا رویہ کیا ہوگا؟ بلی دوسرے کا نقطۂ نظر نہیں سمجھتی ، اگر اسے بتا دیا جائے کہ ہم دنیا میں دوسروں کی مدد کرنے آئے ہیں تو اس کا پہلا سوال یہ ہوگا کہ پھر دوسرے یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟٭ یاد رکھیے کہ محبوب کی نگاہوں میں ایک چالیس پینتالیس برس کا نوجوان، ایک پچیس تیس سالہ بوڑھے سے کہیں بہتر ہے۔(اور ایسے نوعمر بوڑھے ان دنوں کافی تعداد میں ہر جگہ ملتے ہیں) محبوب کی سالگرہ یاد رکھیے لیکن اس کی عمر بھول جائیے۔ ٭ بچے سوال پوچھیں تو جواب دیجیے مگر اس انداز میں کہ دوبارہ سوال نہ کر سکیں ۔ اگر زیادہ تنگ کریں تو کہہ دیجیے کہ ، جب بڑے ہوگے سب پتہ چل جائے گا۔ بچوں کو بھوتوں سے ڈراتے رہیے ، شاید وہ بزرگوں کا ادب کرنے لگیں… آخری بچہ سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بگاڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ آخری بچہ نہیں ہونا چاہیے۔٭ سائنٹفک نقطہ نگاہ سے اونٹ کا ڈیزائن تسلی بخش نہیں ہے۔یوں لگتا ہے جیسے اسے کسی کمیٹی کی سفارشات پر بنایا گیا ہو۔ ٭ حکیم رازی کو اوائل عمر میں بانسری بجانے اور گانے کا بہت شوق تھا۔جب پختگی آئی تو گانا بجانا یک لخت ترک کر دیا اور فرمایا: جو نغمہ داڑھی اور مونچھوں کے درمیان سے نکلے ، اس میں کوئی جاذبیت نہیں رہتی۔ ٭ ہاضم دوائیاں، ان کا کھانا ہضم کرتی ہیں، خواب آور دوائیوں سے نیند آتی ہے، اسپرین سے پُر اسرار درد دور ہوتے ہیں،سکون پیدا کرنے والی گولیوں سے زبردستی پیدا کیا ہوا ذہنی انتشار کچھ دیر کے لیے کم ہو جاتا ہے… پتہ نہیں ان کے اپنے اعضا دن بھر کیا کرتے رہتے ہیں؟؟٭ آپ کی نظر شروع سے کمزور رہی لیکن عینک سے چِڑ تھی، اس لیے بینائی ٹسٹ کرنے کے چارٹ زبانی رٹ لیے۔٭ مصیبت یہ ہے کہ مشینوں سے کام لینے کے لیے دماغ لڑانا پڑتا ہے۔ گھوڑے ڈانٹنے چمکارنے سے مان جاتے تھے۔ مشینوں کو جتنا گھماؤ، مروڑو، اتنی ہی بگڑتی چلی جاتی ہیں۔ویسے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہارس پاور تب تک ٹھیک تھی، جب تک وہ گھوڑے میں رہی۔ دوستو! آج کی آخری بات پھر یہی ہے کہ ان دنوں اپنے اس عظیم مزاح نگار کا دوبارہ مطالعہ کر کے میرا یہ مؤقف مزید مضبوط ہوا ہے کہ پریشانی اور غم کے ماحول میں مزاح سب سے بڑا سینی ٹائزر ہے۔ شفیق الرحمن ہی کی موت پر لکھا گیا معروف مزاح نگار جناب سرفراز شاہد کا یہ قطعہ بھی اس بات کی تائید کر رہا ہے : مرگ پہ ان کی یہ کھلا عقدہ/کون افضل ہے ، کون کہتر ہے غم کے لاکھوں دکان داروں سے/اک تبسم فروش بہتر ہے