معزز قارئین!۔ 23 جنوری کو وزیر خزانہ جناب اسد عُمرجب قومی اسمبلی کے ایوان میں ، ارکانِ اسمبلی کو"Mini Budget" پڑھ کر سُنا رہے تھے ۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ ’’ کہیں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے وزیر خزانہ کو ، علامہ اقبالؒ کے اِس مصرعے میں ’’سبق ‘‘ کے بجائے ’’ بجٹ‘‘ جڑ کر بجٹ پڑھنے کی تلقین تو نہیں کی گئی تھی ؟ … بجٹؔ پھر پڑھ، صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا! لیکن ایوان میں موجود حزبِ اختلاف کے ارکان کو یہ بات شاید سمجھ میں نہیں آئی چنانچہ وہ مسلسل شورشرابہ اور غُل غپاڑہ کرتے رہے ، احتجاج کے طور پر ڈیسک بھی بجاتے رہے لیکن جناب اسد عمرکو داد دینا پڑے گی کہ اُنہوں نے بجٹ پڑھنے کا تسلسل ٹوٹنے نہیں دِیا۔ ہر دَور میں وزیرخزانہ وفاقی ہو یا صوبائی ، اُس کے ساتھ حزبِ اختلاف کا اِسی طرح کا سلوک کِیا جاتا ہے۔مَیں کئی وزرائے خزانہ کی بجٹ تقریر سُن چکا ہُوں ۔ وزیراعظم نواز شریف کے پہلے دَور میں جب، وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر سرتاج عزیز نے یکم جون 1991ء کو بجٹ پڑھنے اور ہلکان ہوتے دیکھا تو مجھے اُن پر بہت ترس آیاتھا ۔ مَیں نے اپنے 4 جون 1991ء کے کالم میں تجویز کِیا تھا کہ ’’ آئندہ کوئی وزیر خزانہ اپنی بجٹ تقریر کو ترنم سے پڑھیں یا بجٹ تقریر گلوکاروں سے پڑھوائی جائے تو مجھے یقین ہے کہ ( کم از کم موسیقی سے رغبت رکھنے والے ) حزبِ اختلاف کے ارکان وزیر خزانہ کو "Hoot" نہیں کریں گے اور اگر کریں گے تو عوام اُنہیں بد ذوق ؔقرار دے گے اورہاں! ترنم سے بجٹ تقریر پڑھنے کے لئے وزیر خزانہ کا ماہر مالیات ہونا ضروری نہیں ہے ،محض خُوش ؔگلو ہونا ہی کافی ہے ‘‘ لیکن میری کسی بھی حکمران نے نہیں سُنی۔ ’’ تے ہور چُوپو!‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں آپ کو پرانے زمانے کے ایک بادشاہ کی کہانی سُناتا ہُوں ۔ کسی شاعر نے ایک بادشاہ کے دربار میں اُس کی خدمت میں قصیدہ پیش کِیا تو بادشاہ بہت خُوش ہُوا اور اُس کے درباری بھی پھر بادشاہ نے اپنی گھنی اور لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔ ہاتھ کی طرف دیکھا اور کہا کہ ’’ اے شاعر ! ۔ تُم بہت ہی بدقسمت اِنسان ہُو! میرا یہ قانون ہے کہ جب مَیں کسی سے خُوش ہوتا ہُوں تو اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہُوں اور میری داڑھی کے جتنے بال جھڑ کر میرے ہاتھ میں آ جاتے ہیں مَیں اُتنے ہی لاکھ روپے خُوش کرنے والے کو انعام میں دے دیتا ہُوں ۔ تُم نے مجھے خُوش کِیا لیکن مَیں نے داڑھی پر ہاتھ پھیرا ۔ ایک بھی بال میرے ہاتھ میں نہیں آیا۔ اب تُم جائو !‘‘۔ شاعر نے دست بستہ کہا کہ ’’ بادشاہ سلامت!۔ جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں ؟‘‘۔ بادشاہ نے جان کی امان دے دِی تو، شاعر نے عرض کِیا کہ ’’بادشاہ سلامت! یہ آپ کا بنایا ہُوا قانون ہے ، اگر مَیں قانون بناتا تو ، ہاتھ ہو تا میرا اور داڑھی ہوتی آپ کی، پھر آپ دیکھتے کہ ، مَیں کتنے لاکھ روپے آپ سے انعام حاصل کر لیتا‘‘۔ پھر کیا ہُوا معزز قارئین!۔ راوی خاموش ہے ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکانِ کا تعلق اشرافیہ سے ہے اور اُنہی کو کثرت رائے سے وہ اپنے طبقے اور پاکستان کے 60 فی صد مفلوک اُلحال عوام کے لئے بجٹ منظور کرتے ہیں ۔ بجٹ کی منظوری اور اعلان کے بعد ہر حکومت کی طرف سے بجٹ کو عوام دوستؔ اور غریب دوست ؔکہا جاتا ہے ۔ ’’ مصّور پاکستان‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے اپنے فرزند جسٹس جاوید اقبال (مرحوم ) کو اُن کی جوانی میں ہدایت کی تھی کہ … میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے! خُودی نہ بیچ ، غریبی میں ،نام پیدا کر! مجھے یقین ہے کہ’’ ہر دَور میں صِرف پاکستان کے عوام ہی نے علاّمہ اقبالؒ کا طریق ؔاپنایا لیکن’’ اشرافیہ کا طریق ‘‘ کچھ اور ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے کسی شاعر نے اپنے (اور اپنے طبقے کے ) پچھتاوے کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ… ہم نے اقبال ؒ کا کہا مانا! اور فاقوں سے روز مرتے رہے! …O… جُھکنے والوں نے رفعتیں پائیں! ہم خُودی کو بلند کرتے رہے! معزز قارئین!۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کی صدارت میں ’’ پاکستان صوفی کونسل ‘‘ قائم کی گئی تو، وزیراعظم جناب شوکت عزیز نے اپنے کئی جلسوں میں کہا تھا کہ ’’ چودھری شجاعت حسین پاکستان کے سب سے بڑے صُوفی ہیں‘‘ ۔ 5 جون 2006ء کو فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے پوتے جناب عُمر ایوب نے قومی اسمبلی کے ایوان میں 2007ء کا بجٹ پڑھا تو مَیں نے ’’بجٹ 2007ء میں صُوفی اِزم‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا ۔ دراصل اُس وقت میرے ذہن میں ’’ تحریکِ پاکستان ‘‘ کے دو کارکنان دوستوں مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری اور پاکپتن کے میاں محمد اکرم کا تصّور تھا جن کے ساتھ اُن کی میری اور سرگودھا کے میرے ایک دوست صحافی مرحوم تاج اُلدّین حقیقت ؔامرتسری کے ہمراہ ، 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب سے پہلے دسمبر 1964ء میں جب کونسل مسلم لیگ ( بلکہ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار ) ’’مادرِ ملّت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ لاہور میں کونسل مسلم لیگ کے ایک لیڈر میاں منظر بشیر کے گھر (المنظر) میں ’’ مادرِ ملّت‘‘ محترمہ فاطمہ جناح ؒ سے ملاقات ہُوئی تھی۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ( موجودہ چیئرمین "P.E.M.R.A" ) پروفیسر محمد سلیم بیگ کے والد صاحب تھے ، جن کا آدھے زیادہ سے خاندان امرتسر میں سکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا اور میاں محمد اکرم روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن برادرِ عزیز سعید آسیؔ کے والد صاحب ۔ 30 نومبر 1967ء کو جناب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی اور عوام کے لئے روٹی ، کپڑا اور مکان کا وعدہ کِیا تو، مرزا شجاع اُلدّین بیگ کہا کرتے تھے کہ ’’ صُوفی شاعر بابا بُلّھے شاہ (1680ء ۔ 1757ئ) نے تو، بہت پہلے کہہ دِیا تھا کہ … منگ اوئے ، بندیا اللہ کولوں! گُلّی ، جُلّی ، کُلّی! یعنی۔ ’’ اے بندے! اللہ سے روٹی، کپڑا اور مکان مانگ‘‘۔ میاں محمد اکرم کو چشتیہ سِلسلہ کے ولی اور پنجابی کے پہلے شاعر بابا فرید اُلدّین مسعود المعروف بابا شکر گنج ؒ کا کلام از بر تھا۔ وہ بابا جی کا یہ شعر عام طور پر گُنگنایا کرتے تھے کہ … رُکھی سُکھی کھا کے ، ٹھنڈا پانی پی! دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی! یعنی۔ ’’ اے بندے ! تُو رُوکھی ، سُوکھی روٹی کھا کر اور ٹھنڈا پانی پی کر ( زندگی بسر کر ) اور جب امیر لوگ چُپڑی روٹی (پراٹھا) کھائیں تو اُن کی طرف دیکھ کر اپنے دِل کو نہ ترسا ‘‘۔ معزز قارئین! الیکٹرانک میڈیا پر آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ ’’23 جنوری کے بجٹ اجلاس میں جب، وزیراعظم عمران خان ایوان میں داخل ہُوئے تو اُن کے دائیں ہاتھ میں تسبیح تھی اور چہرے پر مسکراہٹ ۔ اُس وقت میرے ذہن میں 11 فروری 2013ء کا وہ منظر گھوم گیا جو، مختلف نیوز چینلوں پر دِکھایا گیا تھا ۔ علاّمہ طاہر اُلقادری احاطۂ سپریم کورٹ میںپہنچے ، اپنے ساتھ چلتے ہُوئے عقیدت مندوں سے باتیں بھی کر رہے تھے اور ہاتھ میں پکڑی ہُوئی تسبیح کے دانوں کا شمار بھی کر رہے تھے ۔ مَیں نے اپنے 13 فروری کے کالم میں ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کا یہ سیاسی ماہِیا پیش کِیا تھا… دوزخ توں ڈرائی جاندا! پیر میرا گلّاں کردا، نالے تسبیح گُھمائی جاندا! لیکن مَیں وزیراعظم عمران خان کے بارے میں اِس طرح کا تصور نہیں کرسکتا ۔ 18 فروری 2018ء کو اُن کی محترمہ بشریٰ مانیکا کے ساتھ شادی ہُوئی توظاہر ہے کہ اُن میں روحانیت ( Spriritulality) تو یقینا پیدا ہوگئی ہوگی ؟اور شاید وہ ، عوام کو ’’صُوفی اِزم ‘‘ کی طرف راغب کرنے کے لئے تقاریب میں اپنے ہاتھ میں تسبیح پکڑے ہوتے ہیں لیکن، معزز قارئین! ۔ پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام تو، ایسی صورتحال سے دو چار ہیں جس کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ … میری صُراحی سے ،قطرہ قطرہ، مئے حوادِث ،ٹپک رہی ہے ! مَیں اپنی تسبیح ٔ روز و شب کا ، شُمار کرتا ہُوں دانا دانا!