معزز قارئین!۔ ماشاء اللہ !۔ آج ہم سب (اہل ِ پاکستان) اور بیرون ملک آباد ’’فرزندان و دُخترانِ پاکستان‘‘ وطن عزیز کے ایٹمی تجربے کی 21 ویں سالگرہ منا رہے ہیں ۔ ہمیں ایٹمی تجربہ اِس لئے کرنا پڑا کہ اِس سے قبل ہمارا پڑوسی (ازلی دشمن) بھارت فروری 1974ء میں پہلی بار اور 11 مئی 1998ء کو دوسری بار ایٹمی تجربہ کر کے ’’ایٹمی قوت ‘‘ بن چکا تھا لیکن ، اُس سے پہلے 1979ء میں برطانیہ کے نشریاتی ادارے "B.B.C" نے ٹیلی وژن پر ایک دستاویزی فلم میں (تکلیف کا اظہار کرتے ہُوئے) کہا تھا کہ ’’ پاکستان اِسلامی بم بنا رہا ہے ‘‘۔ اِس سے پہلے امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے پاس ایٹم بم تھے لیکن "B.B.C" سمیت کسی بھی غیر ملکی نشریاتی ادارے نے اُنہیں ’’ عیسائی بم‘‘ قرار نہیں دِیا تھا اور نہ ہی سوویت یونین اور عوامی جمہوریہ چین کے بموں کو ’’ کمیونسٹ بم‘‘ کہا تھا۔ غیر اعلانیہ طور پر اسرائیل بھی ایٹم بم بنا چکا تھا لیکن، اُس کے بم کو بھی ’’ یہودی بم ‘‘ نہیں کہا گیا تھا اور نہ ہی بھارتی بم کو ’’ ہندو بم ‘‘ کانام دِیا گیا۔ پاکستان نے 1976ء میں اپنے پُر امن ایٹمی پروگرام کا آغاز کردِیا تھا ۔ وہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا دَور تھا ۔ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبداُلقدیر خان اُس پروگرام کے خالق اور انچارج تھے ۔ 1985ء میں صدر جنرل ضیاء اُلحق کے دَور میں پاکستان نے ایٹم بم بنانے کی صلاحیت کر لی تھی لیکن ، ایٹمی تجربہ 28 مئی 1998ء کو وزیراعظم نواز شریف کے دَور میں ہُوا۔ اگر بھارت ایٹمی تجربات نہ کرتا تو، شاید ہم بھی نہ کرتے ؟۔ قیام پاکستان کے بعد ہی سے بھارت نے ( خاص طور پر ) تنازع کشمیر کے باعث پاکستان سے تعلقات کشیدہ کر لئے تھے۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے دَور میں ذوالفقار علی بھٹو ، وزیر خارجہ تھے کہ جبThe Guardian" " کے دولت ِ مشترکہ کے خصوصی نمائندےMr. Peter Kolkay" " کی اِس رپورٹ کو دُنیا بھر کے اخبارات میں خاص اہمیت دِی گئی تھی جس، میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ’’ اگر عوام کو گھاس بھی کھانا پڑی تو، بھی ہم ( اہل پاکستان) ایٹم بم ضرور بنائیں گے یا کسی سے حاصل کرلیں گے ‘‘۔ اِس پر ہمارے قومی اخبارات نے جنابِ بھٹو کو بہت شاباش دِی تھی۔ اُنہی دِنوں سرگودھا کے معروف شاعر ، ادیب اور صحافی میر عبداُلرشید اشکؔ (مرحوم) کے ہفت روزہ ’’شعلہ‘‘ میں میری ’’ گھاس کھائیے ! ‘‘ کے عنوان سے میری فرمائش پر میرے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ کی ایک نظم شائع ہُوئی تھی ، جس کے چار شعر یوں تھے /ہیں … سب ہوگیا ہے ، زیر و زَبر ، گھاس کھائیے! اربابِ ذوق و علم و ہُنر، ، گھاس کھائیے! …O… روٹی نہیں تو، بھوک کا ،کیسے علاج ہو؟ کھائیں گے، کیسے لعل و گُہر ، گھاس کھائیے! …O… جنگل میں ، یوں تو اور جڑی بوٹیاں بھی ہیں! اہل وطن کے ساتھ ، مگر ، گھاس کھائیے! …O… اِک بار گھاس کھانے سے ، گر بھوک نہ مٹے! اے یارِ غار ! بارے دِگر ، گھاس کھائیے! معزز قارئین!۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 8 اکتوبر 1958ء سے 16 جون 1966ء تک صدر سکندر مرزا اور جنرل ( بعد ازں فیلڈ مارشل ) صدر محمد ایوب خان کی مارشلائی حکومت میں اُن کی نوکری چھوڑ کر عوامی سیاست شروع کی اور 30 نومبر 1967ء کو اپنی چیئرمین شِپ میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے قیام کے بعد ، ’’ سوشلزم ہماری معیشت ہے ‘‘ کے نام سے بھوکے ، ننگے اور بے گھر عوام کو ’’ روٹی، کپڑا اور مکان ‘‘ کا ’’لارا ‘‘ لگایا لیکن، سولین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدرِ پاکستان اور پھر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹوکا یہ ’’لارا‘‘ (جھوٹا وعدہ ) ’’ لارا‘‘ ہی رہا ۔ اُن کے دَور میں بھوکے ، ننگے اور بے گھر عوام ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس کی طرف مُنہ کر کے حسرت سے کسی فلمی گیت کا یہ مُکھڑا (مطلع )گایا کرتے تھے کہ … کوئی نَواں لارا لا کے ، سانوں رَول جا! جھوٹیا وے ! کوئی جھوٹ ہور بول جا! جنابِ بھٹو کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے دو بار وزارتِ عظمیٰ کے جُھولے جُھولے اور اُن کے قتل کے بعد اُن کے ’’ مجازی خُدا‘‘ آصف علی زرداری بھی منصب صدارت پر فائز رہے لیکن، اُنہوں نے جنابِ بھٹو کا نعرہ ’’ سوشلزم‘‘ ترک کے عوام کو ’’ بھٹواِزم‘‘ سے متعارف کرایا لیکن ، اُن دونوں نے اور اُن کی پارٹیوں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) اور ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘(پی۔ پی۔ پی) کے قائدین نے آج تک اپنی اپنی پارٹی کے قائدین اور کارکنان کو یہ نہیں بتایا کہ ’’ یہ ’’ بھٹو اِزم‘‘ ہے کیا؟۔ جہاں تک جنابِ بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی مخالف ( اور کبھی دوست سیاسی جماعتوں ) نے تو کبھی عوام کو ’’ روٹی ، کپڑا اور مکان ‘ ‘ کا ’’ لارا ‘‘ لگایا ہی نہیں تھا۔ ہاں! ۔ مجھے یاد آیا کہ ’’ 1970ء کے عام انتخابات میں جب، مغربی پاکستان میں جنابِ بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے ’’ روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ بہت زور پکڑا گیا تو، مولانا مودودی (مرحوم) کی جماعتِ اسلامی کے قائدین ( خاص طور پر ) امیدوارانِ قومی و صوبائی اسمبلی اپنے لئے ووٹ مانگنے کے لئے "Door-to-Door" (دَر بدّر) جایا کرتے تھے تو، ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کر اہلخانہ سے پوچھتے تھے کہ ’’ آپ کو قرآن پاک چاہیے یا روٹی؟ تو، وہ کہتے کہ ’’ مولبی ساب! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قرآن پاک ہمارے گھر میں موجود ہے لیکن ، روٹی نہیں ہے ۔ آپ روٹی کا بندوبست کردیں‘‘۔ جس کا نتیجہ یہ ہُوا کہ ’’ دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں ’’بنگلہ نیشنل اِزم‘‘ کی علمبردار شیخ مجیب اُلرحمن کی عوامی لیگ کو قومی اسمبلی میں 151 نشستیں حاصل ہُوئیں ’’ سوشلزم‘‘کی علمبردار جنابِ بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کو 81 اور جماعت ِ اسلامی کو صِرف 4 ۔ معزز قارئین!۔ صدر جنرل محمد یحییٰ خان نے قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی ( عوامی لیگ ) کے سربراہ شیخ مجیب اُلرحمن کو وزیراعظم بنانے کا وعدہ / اعلان کردِیا تھا لیکن، جنابِ بھٹو قومی اسمبلی میں دوسری اکثریتی پارٹی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کو اقتدار میں شامل کرنے پر بضد تھے ، جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا ۔ پھر کیا ہُوا؟۔ پاکستان نے ایٹم بم تو بنا لِیا لیکن، 21 دسمبر 1971ء سے جنابِ بھٹو کے ’’ نئے پاکستان‘‘ سے لے کر 18 اگست 2018ء تک جناب عمران خان کے ’’ نئے پاکستان‘‘ تک بھوکے ، ننگے اور بے گھر عوام ، ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہائوس کی طرف مُنہ کر کے ہر روز آوازیں کستے ہیں کہ … روٹی، کپڑا بھی دے ، مکان ،بھی دے! اور ہمیں ، جان کی امان ،بھی دے ! مسئلہ یہ ہے کہ ’’ پارلیمنٹ ( قومی اسمبلی اور سینٹ ) اور صوبائی اسمبلیوں میں کے منتخب ارکان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر اُنہوں نے کبھی عوام کے حق میں کوئی فیصلہ کِیا ہوتا تو، 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ، جسٹس اعجاز فضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل خصوصی بنچ کو آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت وزیراعظم نواز شریف کو صادقؔ اور امینؔ نہ (ہونے ) پر تاحیات نااہل قرار نہ دینا پڑتا؟۔ اب پارلیمنٹ میں موجود سابق صدر آصف علی زرداری ، اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور اور اُن کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے خلاف مقدمات کا فیصلہ کون کرے گا؟اور اگر کسی نے کِیا تو ، اُسے کون مانے گا؟۔ معزز قارئین!۔ دوسری بڑی سُپر پاور سوویت یونین بھی تو ، ’’ایٹمی قوت ‘‘ تھی ۔ اُس کے زوال کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ’’ ریاست کی بیکریوں کے باہر ہاتھوں میں "Roubles" لئے خریداروںکی لمبی لمبی قطاریں تھیں لیکن ، بیکریوں میں اشیائے خورو نوش نہیں تھیں لیکن،ہمارے پیارے پاکستان میں تو ، غربت کی لکیر سے نیچے 60 فی صد عوام کے پاس تو، قوّتِ خرید ہی نہیں ہے ؟۔