عمر بھر اس سے اختلاف رہا۔ چخ چخ بھی بہت رہی مگر آج جب اس کے مرنے کی خبر سنی تو روح میں ایک سناٹا سا چھا گیا۔ مجھے کہنے دیجئے‘ وہ اس عہد کی خواتین میں تخلیقی لحاظ سے بڑا ہی زرخیز ذہن رکھتی تھی۔ یہ اعتراف میں اس لیے کر رہا ہوں کہ بعض اوقات اختلاف کے معنی یہ لیے جاتے ہیں کہ جس سے اختلاف کیا جارہا ہو‘ اس کی مکمل نفی کی جاتی ہے۔ میں فیض صاحب تک پر فقرے لگاتا رہتا ہوں۔ کبھی کہتا ہوں کہ اپنے کمزور لمحوں میں مجھے فیض بھی اچھے لگتے ہیں‘ کبھی کہتا ہوں فیض اچھا کاپی رائٹر ہے۔ اس پر دلیل کے پل بھی باندھتا رہتا ہوں۔ اس سے بعض احباب سمجھتے ہیں کہ میں فیض کو شاعر ہی نہیں مانتا۔ انہیں بتاتا ہوں کہ جب فیض کا انتقال ہوا تو میں نے ان پر جو مضمون باندھا‘ اس کا عنوان تھا‘ اردو کا آخری شاعر۔ وہ یہ نہ سمجھا جائے کہ کچھ نظریاتی حوالوں سے میں یہ مخالفت کرتا ہوں۔ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ ادب نے ایسی تربیت کر رکھی ہے کہ یہ باتیں درمیان میں نہیں آتیں۔ ایک بار عرض کیا کہ مجھے فیض سے اسی نوعیت کا اختلاف ہے جو اقبال کو حافظ سے تھا۔ یا چلیے یوں کہہ لیجئے یہ شعری بوطیقا کا مسئلہ ہے۔ مرا معیار شعریت مختلف ہوگا۔ میرا شاید یہ خیال ہے کہ لسانی غنائیت والی شاعری دنیا میں کبھی بڑی شاعری نہیں ہوتی‘ خوبصورت شاعری ضرور ہوتی ہے۔ اس جملہ معترضہ کے بعد عرض یہ کرنا ہے کہ فہمیدہ ریاض سے پہلی ہی ملاقات میں چخ چخ ہو گئی‘ پھر وہ عمر بھر جاری رہی‘ خاص طور پر حلقہ ارباب ذوق کی مجلسوں میں۔ مجھے یاد ہے کہ فہمیدہ کی نظمیں شاید آٹھ دس تھیں‘ پہلی بار احمد ندیم قاسمی نے فنون میں شائع کی تھیں۔ ساتھ فہمیدہ کی پورے صفحے کی بہت خوبصورت تصویر۔ مجھے یہ پرچہ مجید امجد صاحب نے دکھایا تھا اور کہا تھا کہ دیکھو یہ ایک مختلف شاعرہ ابھر رہی ہے۔ ان نظموں میں وہ ایک بانجی یا سرکش روح تو دکھائی نہ دی مگر اس میں ایک ایسی چمک تھی جو سوچنے پر مجبور کرتی تھی۔ جب کراچی گیا تو فہمیدہ کا پہلا مجموعہ کلام پتھر کی زبان شائع ہو کر داد وصول کر چکا تھا۔ ایک شاعر تھے ذوالفقار احمد‘ وہ اس نسل کے نمائندہ تھے جس نے اس زمانے میں ایک بالکل جدید تر شاعری کا ڈول ڈالا تھا۔ پھر وہ غائب ہو گئے۔ ایک دن حلقہ ارباب ذوق کراچی میں ملے تو میں نے بیساختہ کہا آپ وہی ہیں نا: سنو بادشاہ‘ اے مرے بادشاہ شہر میں ایک کیمسٹ ہے جو فرشتوں کا تازہ لہو بیچتا ہے وہ چونک اٹھے‘ شاید وہ خود کو فراموش کر چکے تھے۔ ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کام کر رہے تھے۔ لنٹاس‘ اس زمانے کی غالباً سب سے بڑی ایجنسی تھی۔ اگلے دن میں انہیں ملنے ان کے دفتر چلا گیا۔ وہیں فہمیدہ ریاض بھی کام کرتی تھیں۔ یہی سے چخ چخ کا آغاز ہوا جو الحمدللہ زندگی بھر جاری رہا۔ ادب میں میرے اختلاف کے اپنے پیرائے ہوتے ہیں‘ ان دنوں میں نے پروین شاکر کی کتاب خوشبو پر ایک تبصرہ نما مضمون لکھا جس کے پہلے فقرے میں اس تنقید کا بیج موجود تھا جسے بعد میں نسائی تنقید کہا گیا۔ میرا سوال سلیم احمد کے ایک فقرے کے حوالے سے تھا۔ پوچھا یہ تھا کہ سلیم بھائی یہ کہتے ہیں کہ عورت کی طرح شاعری بھی پورا آدمی مانگتی ہے۔ میرا سوال یہ تھا کہ اگر شاعر خود عورت ہو تو پھر کیا کہا جائے گا۔ یہ بحث میں نے ان دنوں بہت کی ہے حتیٰ کہ پروین شاکر کی دوسری کتاب کے سرورق لکھتے ہوئے میں نے لڑکی سے عورت بننے کے مرحلے بیان کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ عورت بننا اور عورت کی طرح دکھ سہنا بڑا مشکل ہے۔ اس لیے ہم نے بڑی بڑی عورتوں کو مرد بنتے دیکھا ہے۔ آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ میں کون سے سوال اٹھا رہا تھا۔ لڑکیوں کی سی شاعری کرنا تو بڑا اچھا لگتا ہے‘ مگر عورت بن کر نئی شعری بوطیقا تخلیق کرنا ایک بہت بڑا کام ہے۔ پروین والے مضمون ہی میں کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کا ذکر پروین کے پیشروئوں کے طور پر کیا۔ اس میں فہمیدہ کے بارے میں جو ایک پہرے کا تجزیہ تھا‘ وہ بہت سوں کو گراں گزرا۔ پروین نے ’’مسئلہ‘‘ کے نام سے ایک نظم لکھی ہے جس کا ایک بند یوں ہے: جب میز پہ ہم ملے تو اس نے بڑھ کر مرے ہاتھ یوں تھامے جیسے مجھے کھوجتی ہو کب سے پھر مجھ سے کہا کہ آج پروین جب شعر سناتے تم کو دیکھا میں خود کو بہت ہی یاد کرتی وہ وقت کہ جب تمہاری صورت میں بھی یونہی شعر کہہ رہی تھی لکھتی تھی اسی طرح کی نظمیں پر اب تو وہ ساری نظمیں‘ غزلیں گزرے ہوئے خواب کی باتیں میں سب کو ڈس اون کر چکی ہوں یہ فہمیدہ ریاض تھی‘ میں نے اس ڈس اون کرنے کے مسئلے کو اٹھایا کہ زندگیوں میں ہماری شاعرات کو یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے جو لڑکی اور عورت بننے کے سنگھم پر آتا ہے۔ میں نے کہیں لکھ دیا کہ فہمیدہ نے خود ہی کو ڈس اون نہیں کہا‘ اپنی کلاس کو بھی ڈس اون کرنے کی ٹھانی۔ وہ بھی اس طرح کہ اوپر کی کلاس میں جانے کا سوچا۔ پھر وہ سبط حسن سے ہوتی ہوئی امرتا پریتم تک جا پہنچی۔ یہ میری سوچی سمجھی رائے تھی کہ نظریاتی آدمی بنتے ہوئے آدمی جب بورژوائی سوچ کے ساتھ چلتا ہے تو اس کا عجیب حال ہو جاتا ہے۔ اس موضوع پر میں نے بہت گفتگو کی ہے‘ آج مگر صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شاعری نظریاتی ہوتی ہے نہ طبقاتی۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک مذاکرے میں کہیں میں نے یہ کہہ دیا کہ اپنی ساری عمر تو ترقی پسندوں سے اس بات پر لڑتے گزری کہ منشور سامنے رکھ کر ادب نہیں لکھا جاسکتا‘ اب اس سے اگلا مرحلہ درپیش ہے کہ این جی او کے ایجنڈے پر ادب تخلیق کرو۔ بس ایک طوفان آ گیا‘ آصف فرخی اور فہمیدہ ریاض دونوں چیخ اٹھے۔ میں آج تک اس موقف پر قائم ہوں اور سول سوسائٹی کے اس تصور پر لکھتا رہتا ہوں جو این جی او کی صورت میں ہمارے ہاں رائج کیا جارہا ہے کہ آئو بھائی اس ایجنڈے پر ادب تخلیق کریں۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ ان دنوں ایک واقعہ بھی ہوا تھا ایک این جی او کے پیسے بچے ہوئے تھے۔ سال پورا ہورہا تھا۔ ایسی صورت میں وہ فنڈ واپس چلاجاتا۔ سارے انقلابی اکٹھے ہوئے۔ سوچا فراق کا یوم آ رہا ہے‘ فراق کانفرنس کرلیتے ہیں‘ بھارت سے بھی لوگ بلا لیں گے۔ یہ حق بھی ادا ہو جائے گا۔ کسی نے کہا‘ بھئی یہ پیسہ تو عورتوں کے حقوق کے لیے ہے اور فراق گورکھپوری کے بارے میں سب جانتے ہیں‘ وہ عورتوں کے کتنا خلاف ہیں۔ کہا چپ رہو‘ بھارتی ادیب تو آ جائیں گے‘ کوئی شک نہ کرے گا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ این جی او فہمیدہ کی تھی۔ اس لیے میری ان حرکتوں سے کون خوش ہو سکتا تھا۔ اس سب کے باوجود میں نے عرض کر دیا کہ وہ بے پناہ تخلیقی صلاحیتیں رکھتی تھی۔ شاید اپنی ہم عصر خواتین میں سب سے زرخیز ذہن تھی۔ دکھ مجھے اس کا ہے کہ یہ نظریہ ساز بلکہ نظریہ باز تخلیق کاروں کو ہانک کر کس طرف لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ اندر بھی یہ خواہش موجود ہوتی ہے۔ میں نے جب آکسفورڈ پریس کی طرف سے فہمیدہ کی لکھی ہوئی درسی کتابیں دیکھیں تو بھی بہت سٹپتایا کہ انہیں کوئی اور کام نہ سوجھا اور ٹیکسٹ بک کے لیے کوئی اور نہ ملا۔ وہ پاکستان سے انڈیا بھی چلی گئیں۔ نام تو یہ تھا کہ ضیاء الحق کے زمانے میں ملک چھوڑنا پڑا۔ فیض صاحب نے بھی ملک چھوڑا تھا‘ مگر کس بات پر۔ آج کسی کو نیف ڈیک باد ہی نہیں ہے۔ احمد فراز بھی چلے گئے تھے مگر کیوں۔ دونوں اس دور میں واپس آگئے۔ فیض صاحب اپنا خلاصہ سناتے تو داد ملتی مگر فہمیدہ اور فراز کو تو بھارتیوں نے ہوٹ کرنا شروع کردیا تھا۔ فہمیدہ کو جلد بھارتی سرکار کی عنایتیں چھوڑ کر واپس آنا پڑا۔ کسی نے بہت عمدہ کہا کہ فیض بورژوا تھا‘ مگر فراز پیٹی بورژوا اور یہ کہ بورژوا کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہے۔ نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں… اس کے باوجود فراز سے میرے بہت اچھے ذاتی تعلقات تھے۔ امریکہ میں اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے سے پہلے کراچی میں ان کے اعزاز میں جو دو چار مجلسیں ہوئی تھیں‘ ان میں ایک میرے گھر پر تھی۔ مشتاق احمد یوسفی‘ زہرہ نگاہ‘ انور مقصود بھی تھے۔ حالانکہ اس وقت میرا ایک فقرہ بہت چل رہا تھا جو میں نے عزیز حامد مدنی کے حوالے سے لکھا تھا کہ جس معاشرے میں عزیز حامد مدنی کو کم لوگ جانتے ہوں اور احمد فراز مقبول شاعر ہو‘ اس معاشرے کو سوچنا چاہیے کہ اس میں کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ ادب میں ہم بہت ظالم لوگ ہیں۔ شعر کی بوطیقا بھی الگ ہوئی ہے اور اس کی دنیا بھی۔ دوبارہ دہراتا ہوں کہ فہمیدہ ریاض اپنے زمانے کی خواتین میں سب سے زرخیز ذہن تھا۔ میرا دکھ یہ تھا کہ یہ ذہن کسی اور طرف بھٹک گیا۔ فہمیدہ ریاض