العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ سامنے آجائے گا،اس سے قطع نظر کہ فیصلہ آتا کیا ہے؟ مجھے اس دن کا نواز شریف ہمیشہ یاد رہے گا جب تین چاردن پہلے وہ عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے فیصلے کا دن تبدیل کرنے کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کر دیا اور انہیں کہا گیا کہ فیصلہ چوبیس دسمبر کو ہی سنایا جائے گا، عدالت سے ان کی واپسی پر باہر کھڑے ہوئے ایک صحافی نے ان سے کوئی سوال کیا، جس کے جواب میں انہوں نے فیض کی ایک مشہور زمانہ غزل کا ایک شعر پڑھا اور آگے بڑھ گئے،وہ یہ شعر تھا: جو ہم پہ گزری سو گزری،مگر شب ہجراں ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا تھا، میری تمام تر توجہ نواز شریف صاحب کے اس شاعرانہ جواب پر مرکوز ہو کر رہ گئی، میں نے ٹی وی کا سوئچ آف کر دیا اور مسلسل سوچتا رہا کہ صحافی نے تو سزا کے حوالے سے عدالتی کارروائی کے بارے میں پوچھا تھا، نواز شریف یہ غیر متعلقہ جواب کیوں دے گئے؟ نواز شریف کے شعر پڑھنے پر میرے فوری رد عمل نے مجھے یہ سبق دیا کہ جب آپ کسی بھی شاعر کو پڑھیں تو اس کی ساری زندگی کا نچوڑ بھی آپ کے سامنے ہونا چاہیے۔اب واپس جاتے ہیں فیض کی غزل اور اس غزل کے اشعار کی تفسیر کی جانب۔ گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے دھرتی پر رنگ رنگ کے پھول کھلے ہوئے ہیں،تازہ ہوائیں چل رہی ہیں،مگر میرے وجود میں تو اداسیاں اور اکلاپا چھایا ہوا ہے،میرے لئے بہار کا یہ موسم خزاں بنا ہوا ہے، اے میرے دوست،اے میرے محبوب اگر اس وقت تم بھی ساتھ ہوتے تو اس حسین موسم پر میرا بھی حق ہوتا، میرا آنگن بھی سونا نہ ہوتا،میرے دل میں بھی شگوفے کھلے ہوتے، یہاں بھی باد صبا چل رہی ہوتی، ہماری قسمت میں اندھیرے نہ ہوتے۔ ٭٭٭٭٭ قفس اداس ہے یارو، صبا سے کچھ تو کہو کہیں تو بہر خدا،آج ذکر یار چلے ہم پابند سلاسل ہیں، ہمارے پاؤں میں زنجیریں ہیں،ویسی ہی زنجیریں جو آپ نے سرگودھایونیورسٹی کے پروفیسر کی میت کو لپیٹے ہوئے دیکھیں،ہمارے پاس اس زندان میں صرف تمہاری یادوں کا سہارا ہے، تمہاری باتوں کا سہارا ہے یہی وہ واحد سہارا ہے جو ہمیں غم دوراں سے دور رکھ سکتا ہے، ہر نئی مصیبت ہمیں تمہارے پاس لے جاتی ہے،کاش غم دوراں غم یاراں بن جائے، اسی آس پر ہم مسافتیں طے کرتے چلے جا رہے ہیں، ہم ہیں اور یادوں کے صحرا ہیں، ہم ان صحراؤں میں ان گھنے درختوں کی تلاش میں ہیں جن کی چھاؤں میں کچھ دیر بیٹھ کر سستا لیں۔ ٭٭٭٭٭ کبھی تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز کبھی تو شب سر کاکل سے مشک بار چلے ہم ہجر و فراق کے سارے عذاب سہہ چکے،ترے بغیر مرتے ہیں اور پھر جی اٹھتے ہیں، تیرے لئے ہی یہ پرخار راستے چنے ہیں، لیکن تم نے کبھی بھی ہمیں اپنوں کی آنکھ سے نہیں دیکھا،یہی تو ایک آرزو تھی کہ کبھی تو صبح کی پہلی کرن تمہاری شکل میں طلوع ہوگی،اور اس کرن کو صرف ہم دیکھ سکیں گے،وہ روشنی صرف ہمارے لئے نمودار ہوگی، ہم یہ سوچ کر بھی جیتے رہے کہ ایک شب تو ایسی ہوگی جو ہم ایک ساتھ گزاریں گے اور روشنی کی پہلی کرن ایک ساتھ دیکھیں گے، غم دوراں جب ہمیں تھکا دے گا تو تم ہماری راحت بن جاؤگی ۔ ٭٭٭٭٭ بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی تمہارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے چاہتوں کے سفر میں ہمیشہ مایوسیوں اور محرومیوں سے واسطہ پڑتا ہی ہے، محبوبیت کا تو کام ہی افسردگی اور اداسی عطا کرنا ہے، محبتوں کا انجام سبھی کیلئے مشترکہ ہوتا ہے، ہم جیسے لوگ جب بھی ایک ساتھ بیٹھتے ہیں بے اختیاری میں ہی بیٹھتے ہیں، درد کا رشتہ سب کو سانجھ میں باندھے رکھتا ہے اور جب یہ لوگ ایکا کر لیتے ہیں تو کچھ پانے کی جستجو میں اپنی جدوجہد کو تیز تر کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ منزل پانے کیلئے جانوں کے نذرانے بھی پیش کر دیتے ہیں (اب ہم فیض صاحب کی اس غزل کے اس شعر کی جانب بڑھتے ہیں جو نواز شریف نے احتساب عدالت میں پڑھا،ہو سکتا ہے کہ اس شعر کی وہی تفسیر ان کے پاس بھی ہو جو ہم یہاں پیش کرنے جا رہے ہیں) ٭٭٭٭٭ جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے جو سیاہ رات ہم گزار رہے ہیں وہ کچھ زیادہ ہی طویل ہوتی جا رہی ہے، اگر اس کی طوالت کا کچھ اندازہ ہوتا تو شاید ہم لندن سے واپس ہی نہ آتے،اس رات کی سیاہی میں ہم پر جو جبر ہوا، جو ظلم و ستم ڈھائے گئے وہ اب آنسو بن گئے ہیں، اے،سیاہ رات ! کیا ہمارے آنسو ہمارے لئے صبح کی نوید نہیں لا سکتے، اگر تو آئندہ کبھی ہمیں پھر اقتدار ملنا ہے تو ہم اس کالی رات کی طوالت بھی برداشت کرنے کو تیار ہیں، ہمیں یہ آنسو بھی منظور ہیں اگر ہمیں پھر سے طاقت اور قوت ملنی ہے، ہمیں جو بھی برداشت کرنا پڑے‘ برداشت کریں گے اگر ن لیگ کو پھر سے حکمرانی ملنا ہے۔ ٭٭٭٭٭ حضور یار ہوئی دفتر جنوں کی طلب گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے ہم جنوں کی سرحدوں میں داخل ہو چکے ہیں، یہاں تک پہنچنے کیلئے ہم سے جو بھی قربانی مانگی گئی وہ ہم نے دی،اب تو ہمارا کل سرمایہ اور اثاثہ ہمارا گریبان ہے اور یہ گریبان بھی تار تار ہے، ہمارے پاس اب کھونے کو کچھ بھی نہیں رہا، ہمارے پاس اپنی وفاؤں کا ثبوت دینے کیلئے کچھ اور ہے بھی تو نہیں۔ ٭٭٭٭٭ مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے جستجو بڑی قربانیاں مانگتی ہے، منزلیں بہت امتحان لیتی ہیں، ہم تو چاہ رہے تھے کہ دیار یار میں ہی رہیں، ہمارا خیال ہی نہیں یقین بھی تھا کہ ہم کوچہ یار کے حقدار بھی ہیں لیکن ہمیں تو ہمارے مقام سے ہی گرا دیا گیا، ہمیں ہماری منزل سے ہٹا دیا گیا، اب ہمارے پاس کوئی مقام کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں ہم بسیرا کر سکیں، جسے ہم ٹھکانہ بنا سکیں،اب تو ہمیں اپنی جان نچھاور کرنی ہے، اپنی جان وارنی ہے، سکون تو اب اسی میں ہے کہ اپنا لاشہ اپنے ہی کندھوں پر اٹھا لیں اور کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ گردن میں پڑا ہوا طوق بھی خود نکالیں اور موت کا پھندا بھی اپنی گردن میں اپنے ہی ہاتھوں سے ڈالیں۔(فیض احمد فیض کی روح سے معذرت کے ساتھ)