پاکستان اور بھارت میں لوگوں کی اکثریت دونوں ممالک کے درمیان امن کو خواب ہی سمجھتی ہے۔ مگر اس کے باوجود دونوں ممالک میں ایک طبقہ بہرحال موجود ہے جو امن کے خواب دیکھنے پر یقین رکھتا ہے۔ امن نا ہونے کا مطلب جنگ یا تصادم ہرگز نہیں لیا جا سکتا۔ بسا اوقات اس کا مطلب محدود پیمانے پر تصادم یا مینج ایبل جارحیت بھی ہوتی ہے جس کی شدت تو کم ہوتی ہے مگر متعلقہ ممالک کو کمزور اور وسائل کو ضائع کرتی ہے۔ دونوں ممالک میں روایتی اور غیر روایتی چینلز موجود ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان تنائو کو تصادم کی شکل اختیار کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔ ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی ایسی ہی غیر روایتی سفارت کاری کا حصہ ہے جو باقاعدہ سفارت کاری کے لیے دروازے کھلے رکھنے میں مددگار ہوتا ہے ٹریک ٹو ڈپلومیسی اس وقت بھی سرگرمی سے اپنا کام کر رہی ہوتی ہے جب باقاعدہ سفارت کاری سٹیٹس کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ البتہ اکثر اوقات ٹریک ٹو ڈپلومیسی ایک خود مختار عمل ہوتا ہے جس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کو دو طرح سے متاثر کرنا ہوتا ہے۔ اول باضابطہ سفارتکاری میں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کرنا‘دوسرے باہمی تنائو کو کم کرنے کے لیے ممکنہ امکانات تجویز کرنا اور تنازعات کے حل کے لیے تجاویز دینا۔ کسی بھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ نہ صرف ٹریک ٹو کے عمل کو برداشت کرتی ہے بلکہ ٹریک ٹو کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے مگر ضروری نہیں ہوتا ہے کہ اس ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تمام نتائج کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی اور بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے سربراہ امر جیت سنگھ دولت اور صحافی ادیتہ سنہا کی کتاب سپائی کرینکلز کو اسی قسم کی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی ایک کاوش قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کتاب میں دونوں ممالک کے حساس معاملات پر بات کی گئی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا مقصد ٹریک ون کی معاونت ہوتا ہے مگر پاکستان اور بھارت کے مابین ڈپلومیسی مجموعی طور پر قابل کنٹرول جارحیت کے فلسفے کا شکار ہوتی رہی ہے۔ جامع مذاکرات جو دونوں ممالک کا اولین ہدف رہا ہے کا پہلی بار 1985ء میں چار نکاتی ایجنڈے کے تحت آغاز ہوا جس میں سرکریک‘ سیاچن اور دہشت گردی شامل تھے جو بعد میں 1997ء میں آٹھ نکات جن میں کشمیر بھی شامل تھا تک پہنچ گئے۔ 2004ء میں ایک بار پھر دونوں ممالک نے مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ دسمبر 2015ء میں دونوں ممالک نے ایک بار پھر مذاکراتی عمل شروع کرنے کی کوشش کی۔ گزشتہ تین سال سے یہ عمل اس لیے شروع نہ ہو سکا کیونکہ پاکستان میں سول ملٹری تنائو نے خطہ کا منظر نامہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی نے ہمیشہ ٹریک ون مذاکراتی عمل کی بحالی میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک بار سارک تنظیم کے پلیٹ فارم سے بھی مذاکرات کی بحالی کی کوشش کی گئی۔ جہاں ٹریک ٹو کے لابی کو اپنے اپنے ممالک کی قیادت پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا تھا۔ سپائی کرینکلز کی ریلیز سے کچھ ہی ہفتے پہلے پاکستان نے نیم رانا ڈائیلاگ کی میزبانی کی تھی۔ یہ پاکستان اور بھارت کی سب سے قدیم ٹریک ٹو کی تنظیم ہے۔ جس کو دونوں اطراف سے اشارے ملے تھے کہ دونوں ممالک نے جلد ٹریک ون مذاکراتی عمل کے آغاز کا عندیہ دیا ہے اس کے فوراً بعد پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ سمیت دفتر خارجہ اور عسکری اہلکاروں کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے اس قسم کے اشارے دوسری طرف سے بھی آ رہے تھے پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کا ہاٹ لائن پر ہنگامی رابطہ اور 2003ء کے سیز فائر معاہدے کو یقینی بنانے کا عزم بھی ایسا ہی مثبت اشارہ ہے۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ چین نا صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے بلکہ پاکستان اور افغانستان کے معاملات کو سلجھانے میں بھی جتا ہوا ہے اس کی وجہ سادہ سی ہے کہ خطہ میں امن سی پیک کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ چین کے صدر ژی جنگ پنگ اور مودی مسلسل رابطے میں ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ دونوں ممالک کے درمیان دوبارہ ڈوکلام جیسا بحران پیدا نہ ہو تمام چینلز استعمال کر رہے ہیں۔ چین پاکستان کی بھی اس طرح کے اقدام کے لیے حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ پاکستان نے حالیہ جو اندرونی سکیورٹی ریویو جاری کیا ہے اس میں پاکستان نے اپنے سنٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا کی راہداری کے کردار کو تسلیم کیا ہے اور خود کو سی پیک سے کماحقہ فوائد سے مستفید کرنے کے لیے عملی طور پر تیار بھی کر رہا ہے۔اگر یہ خواہش پاکستان کی پالیسی بن جاتی ہے تو پھر پاکستان کو ایک مختلف قسم کی سفارتکاری کی ضرورت ہو گی۔ جس کے لیے اب تک کے روایتی چینلز موثر نہیں۔ افغانستان اور امریکہ بارے بھی ٹریک ٹو کی کوششوں کے آغاز سے پاکستان کی ڈپلومیسی کی خامیاں کھل کر سامنے آ ئی ہیں یہاں بھی ٹریک ٹو باضابطہ سفارتکاری کی خلیج کو پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حالیہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنائو کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور ان کوششوں کا ثمر افغانستان اور پاکستان کے استحکام اور امن کے لیے ایکشن پلان ہے۔ چین پاکستان اور بھارت کے مابین بھی اسی قسم کی ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے چین کے تھنک ٹینک اور دانشور حلقے اور دیگر ادارے مسلسل دونوں ممالک کے پالیسی میکرز اور رائے عامہ ہموار کرنے والے اداروں کے اہم افراد کو چین میں مباحثوں کی دعوت دے رہے ہیں جن میں دونوں ممالک کے لوگوں کو کھل کر بات کرنے اور خدشات کے اظہار کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ چین کی یہ کوشش قابل کنٹرول جارحیت کے سرکل کو توڑنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا دم توڑ جاتی ہیں مگر ایک بات طے ہے کہ ان کوششوں سے خطہ میں غیر روایتی ڈپلو میسی کے نئے دروا ہوئے ہیں۔ چین کا پاکستان اور افغانستان کے مابین امن مذاکرات بحال کرانے میں اہم کردار رہا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے عسکری اور سول کی طرف سے امن کی خواہش نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔