متوقع قائد حزب اقتدار عمران خان اور متوقع قائد حزب اختلاف شہباز شریف دونوں کو ایک کے بعد ایک دریا کا سامنا ہے اور دونوں کو ایک کے بعد ایک کڑے امتحان سے گزرنا ہوگا۔ آج بروز بدھ جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو میاں شہبازشریف کا ایک پائوں نیب کورٹ کے باہر اور دوسرا قومی اسمبلی میں تھا، جہاں سپیکر شپ او رڈپٹی سپیکر شپ کا انتخاب ہورہا تھا۔ میاں شہبازشریف کا اپنا غیر اعلانیہ بیانیہ بھی ہے۔ انہیں لاکھ مجبور کیا جائے تو بھی ان کے منہ سے میاں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کا منہ زور بیانیہ ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ شہبازشریف نے انتخابات میں ع مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا انہوں نے تبدیلی کے سونامی کے باوجود قومی اسمبلی میں بھی خاطر خواہ سیٹیں لے لیں اور پنجاب اسمبلی میں اگر وہ ہمت نہ ہارتے تو شاید انیس بیس کے فرق سے وہ پنجاب کی قیادت ایک بار پھر سنبھال سکتے تھے۔ جہاں تک قومی اسمبلی کا تعلق ہے تو وہ ذمہ دارانہ احتجاج بھی کررہے ہیں اور اختلاف بھی۔ مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں اورسوشل میڈیا پر میاں شہبازشریف کے خلاف سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ دودھ پینے والے چند مجنوں پس دیوار زنداں قیادت کی گڈ بکس میں اچھے نمبر لگوانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں مگر یہ انقلابی وقت آنے پر کہیں دکھائی دیتے ہیں نہ سنائی دیتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن ویسی سیاسی جماعت نہیں ہے جیسی جیالوں پر مشتمل پاکستان پیپلزپارٹی یا کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستان تحریک انصاف یا پھر نظم و ضبط کی پابندی کرنے والے کارکنوں پر مشتمل جماعت اسلامی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کسی عوامی جدوجہد کے نتیجے میں نہیں ہمہ مقتدر فوجی حکمرانوں کی آشیرباد سے کوچہ اقتدار میں وارد ہوئی تھی بعدازاں اس جماعت نے اسٹیبلشمنٹ کی تائید، عوام کے ووٹوں اور بیوروکریسی کی خدمت گزاری سے کئی بار اقتدار حاصل کیا۔ ایک دو بار انہیں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ میدان جنگ میں ڈٹ کر کھڑے ہونے کی بجائے افہام و تفہیم سے جدہ کے قصرالسرور میں جا کر متمکن ہو گئے۔ میاں شہبازشریف کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی انتخابی مہم کے پیچھے ایک بڑی قوت نوکر شاہی کے کل پرزوں کی ہوتی تھی۔ آج مسلم لیگ ن کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل نہیں اور نہ ہی اسے نوکرشاہی کی بے روک ٹوک خدمت گزاری ان کے ساتھ ہے۔ مسلم لیگ ن کے شرفا اپنے ارکان قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی اور کارکنوں کے ساتھ گزشتہ دس برس سے جو ’’حسن سلوک‘‘ کرتے رہے ہیں وہ بھی ان کی نظر میں ہے۔ اس لیے وہ خالی خولی جارحیت دکھا کر اپنی جماعت کا پول نہیں کھولنا چاہتے۔ میاں شہبازشریف نے عمران خان کو نیچا دکھانے کے لیے عمران خان کی دھرنا سیاست سے اجتناب کیا ہے۔ ان کے اس ذمہ دارانہ رویے کو سنجیدہ پارلیمانی حلقوں میںسراہا جارہا ہے۔ نیز ذمہ دارانہ سیاست ہی وہ راستہ ہے۔ مسلم لیگ ن کا شیرازہ بکھرنے سے بچا سکتا ہے۔ ذمہ دارانہ سیاست یا غیر ذمہ دارانہ بیانیے کے دوراہے میں سے ایک کسی کا انتخاب ہی وہ امتحان ہے جس سے متحدہ اپوزیشن کے دریا کو بخیرخوبی عبور کرنے کے بعد شہبازشریف کوگزرنا ہوگا۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو انہیں کئی کڑے امتحان کا سامنا ہے۔ عمران خان نے انتخاب میں کامیابی کے بعد جو پہلی تقریر کی اس کی ہر جگہ پذیرائی ہوئی۔ عمران خان نے پاکستان کو درپیش اہم ترین چیلنجز کا ذکر کیا، سلگتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کی اور کئی قومی ترجیحات کو پیش کیا اور اپنی حکمت عملی کا بھی مختصراً تذکرہ کیا۔ عمران خان کو پوری طرح اندازہ ہونا چاہیے کہ اب انہیں ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کربولنا ہوگا کیونکہ ان کی زبان سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ کی پارلیمنٹ میں بازپرس ہوگی اور عمران خان نے خود ہر ہفتے پارلیمنٹ میں ارکان اسمبلی کے سوالات کے براہ راست جوابات دینے کا آپشن اختیار کیا ہے۔ عمران خان سے بڑی امیدیں وابستہ کرنے والے ایک کم گو دانشور ہیں جو معاملات کو سطحی نظر سے نہیں بلکہ بڑی گہری نگاہ سے دیکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ Loud Thinking عمران خان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ وہ گہرا غور و خوض کرنے سے پہلے ہی کوئی اعلان کردیتے اور پھر اس پر سوچتے ہیں۔ عمران خان جہاں چاہیں رہائش پذیر ہوں عوام کے لیے کوئی بنیادی مسئلہ نہیں۔ کبھی کہا گیا کہ وہ منسٹرز اینکلیو کے اندر سپیکر ہائوس میں رہیں گے۔ کبھی کہا گیا کہ وہ پنجاب ہائوس کی اینکسی میں رہیں گے اور کبھی کہا کہ وہ وزیراعظم کے ملٹری سیکرٹری کے لیے مخصوص گھر میں جلوہ افروز ہوں گے۔ بعدازاں معلوم ہوا کہ ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ تو وزیراعظم ہائوس کے اندر ہی ہے۔ یہ کچے پکے بیانات کمزور تاثر چھوڑتے ہیں۔ عمران خان کو وزیراعظم ہائوس کے اندر ہی رہنا چاہیے، البتہ وہ شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے بجائے سادگی کا کلچر وہاں رائج کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے وہاں غیر ملکی معزز مہمان شخصیات بھی آئیں گی جن کی مہمان نوازی شاندار طریقے سے ہونی چاہیے۔ اگر وزیراعظم ہائوس نہیں ہوگا تو کیا مہمان وفود کو ہوٹل میں کھانا کھلایا جائے گا۔ یہ ثانوی اور نمائشی مسائل ہیں۔ ان کے بارے میں گہرے غور و فکر کے بعد کوئی بات ہونی چاہیے۔ مرکز اورصوبوں میں حکومت سازی کے مراحل سے بخیر و خوبی عہدہ برآ ہو کر عمران خان فوری طور پر ان مسائل کی طرف متوجہ ہوں جو قوم کے لیے بنیادی نوعیت اور اہمیت کے حامل ہیں۔ عمران خان کے سامنے سب سے پہلا مسئلہ تو معیشت کا ہے۔ ہمارا ادائیگیوں کا توازن بری طرح بگڑ چکا ہے۔ جہاں تک زرمبادلہ کا تعلق ہے تو وہ ناقابل بیان حد تک کم ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس ابھی گئے نہیں مگر امریکہ نے دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔ ان حالات میں سعودی عرب کی طرف برادرانہ امداد اور چین کی طرف سے دوستانہ تعاون کے وعدے بہت بڑی نعمت ہے۔ گزشتہ حکومت نے جس طرح سے معیشت کا حشر نشر کردیا تھا اسے درست بھی کرنا ہوگا اور اسے اپنے پائوں پر کھڑا بھی کرنا ہو گا اور ایسے اقتصادی اقدامات بھی کرنا ہوں گے جو آئندہ کے لیے ہمیں مستقل بنیادوں پر کشکول گدائی سے نجات دلا سکیں۔ معیشت کے بعد تعلیم پر ساری توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس شعبے کی بنیادی اصلاحات کے لیے ضروری ہوم ورک ہو چکا ہوگا۔ تعلیم کے بنیادی دو تین مسائل ہیں۔ پہلا تو ان اڑھائی کروڑ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا معاملہ ہے جو سکولوں سے باہر ہیں۔ یہ بچے گھر پر ہیں یا بالی عمر یا ہی میں محنت و مشقت کی بے رحم رتھ میں جت چکے ہیں۔ چائلڈ لیبر کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ دوسرا معاملہ یکساں تعلیم کا ہے۔ یہ بھی عمران کا پرانا خواب اور انتخابی وعدہ ہے۔ اس وقت ملک میں رنگ برنگے تعلیمی سسٹم کام کر رہے ہیں۔ کسی سسٹم کا برطانیہ سے،کسی کا امریکہ سے اور کسی کا لبنان سے کسی کا ترکی سے اور نہ جانے کہاں کہاں سے تعلق ہے۔ ایسے رنگارنگ نظام ہائے تعلیم سے یک رنگ قوم کیسے تیار ہوسکتی ہے۔ دینی تعلیم میں بھی کئی طرح کے نظام کام کر رہے ہیں۔ اگر یکساں تعلیم کے لیے کوئی جاندار کام نہیں ہوا تو عمران خان ایک کمیٹی قائم کردیں جو چھ ماہ کے اندر اندر اپنی رپورٹ اور ورکنگ پیپر پیش کرنے کا پابند ہو۔ ایک اہم مسئلہ اردو کا سرکاری زبان کی حیثیت سے نفاذ ہے۔ اردو کا قومی زبان کی حیثیت سے نفاذ فرمان قائد بھی ہے، دستور کا تقاضا بھی ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کا دو ٹوک فیصلہ بھی ہے اور اس پر ایک پیسہ خرچ کئے بغیر بہت بڑی نیک نامی حاصل ہوگی۔ صحت بھی نہایت اہم شعبہ ہے۔ اس ضمن میں بھی عمران خان نے کئی وعدے کر رکھے ہیں۔ اسی طرح سارے ملک میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص فراہمی آب کا مسئلہ ہے۔ کراچی اور پنجاب کے سب چھوٹے بڑے شہروں کے روزمرہ مسائل کے حل کی چابی لوکل حکومتوں کے موثر نظام کو رائج کرنے میں پنہاں ہے۔ اگر لوکل باڈیز کو اپنے فنڈ خود اکٹھے کرنے اور اپنی فلاح بہبود پر خرچ کرنے کی آزادی و خودمختاری ہوگی تو 90 فیصد مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ بہت سے سیاست دان اور تجزیہ نگار دستوری تقاضوں کے مطابق ریاستی اداروں کی اپنے اپنے دائرے میں خودمختاری کو بھی عمران خان کے لیے بہت بڑا چیلنج سمجھتے ہیں۔ اگر عمران خان (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں) تین باتوں کو ترجیحی بنیادوں پر اپنا لیں گے تو سول ملٹری ریلیشن شپ آئیڈیل ہو جائے گی۔ پہلی بات پارلیمنٹ کو مضبوط بنایا جائے۔ دوسری بات انا پرستی سے چھٹکارا اور خوش دلی کے ساتھ عوامی خدمت ہے۔ سپیکر اسد قیصر کی کامیابی سے عمران خان نے تو ایک بڑے امتحان میں کامیابی حاصل کرلی ہے مگر شہبازشریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن نے اسمبلی میں بے وقت ہنگامہ آرائی کر کے اپنے خاموش بیانیے کی خود ہی نفی کردی ہے۔