میں اسے اتفاق نہیں سمجھتا کہ مسلم لیگ ن جب سیاسی طور پر ابھرتی ہے تو ملک کی نظریاتی شناخت اور بانیان پاکستان کی ذات پر اعتراضات کا سلسلہ کیوں شروع ہو جاتا ہے۔میرے اساتذہ بائیں بازو کے دانشور لوگ تھے،انہوں نے بانیان پاکستان ،آئین پاکستان اور جمہوری اقدار کا احترام کرنے کا درس دیا۔اطہر ندیم صاحب‘ حمید اختر صاحب انتقال فرما گئے۔ حسین نقی صاحب ماشاء اللہ اب بھی مستعد ہیں۔ دائیں بازو سے بھی ایسا ہی پیار اور شفقت ملی۔ یہ تمام لوگ ہمسایہ ریاستوں سے اچھے تعلقات‘ جمہوری بالادستی‘ انسانی حقوق کے احترام اور عام لوگوں کو بااختیار بنانے کی سوچ رکھتے تھے لیکن انہوں نے بانیان پاکستان کے متعلق کسی مخالفانہ بیانئے کی حمایت نہ کی۔یہ لوگ قائد اعظم محمد علی جناح کو کئی بار مسٹر جناح بھی لکھتے لیکن ان کا مسٹر اصول پسندی‘ دیانت اور قائدانہ صلاحیتوں کا مالک ہوتا۔ پچھلے کالم میں قائد اعظم کے متعلق کچھ نامناسب رویے کے تازہ واقعات کا سرسری ذکر کیا تو احباب نے تفصیل سے بات کی فرمائش کی۔ہوا یہ کہ ہمارے ایک بڑے میڈیا گروپ سے وابستہ رپورٹر ہیں۔ان کا اظہاریہ اسٹیبلشمنٹ مخالف ہے لیکن سیاسی طور پر مسلم لیگ ن کو ان کی باتوں سے حمایت ملتی ہے۔اے این پی کی باچا خان کانفرنس میں انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں قائد اعظم کو بہت بڑا رہنما مانتا ہوں لیکن سرکاری مورخوں کے مقابلے میں جب متوازی تاریخ کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ باچا خان بہت ہی بڑے لیڈر تھے۔بہت برے اور بہت ہی بڑے کا فرق ہم سب جانتے ہیں۔ سامنے بیٹھے مخصوص مجمع نے یقینا اس پر تالیاں بجائی ہوں گی۔کسی رہنما کی درجہ بندی کے بہت سے معیار بتائے جاتے ہیں۔میرے خیال میں قائد اعظم کی وراثت پاکستان ہے۔میرے نزدیک لیگسی کی نشاندہی لیڈر کی درجہ بندی کرنے میں اہم ہے،جیسے عوام کو سیاسی شعور دینیکے حوالے سے بھٹو کو احترام دیا جاتا ہے ۔ دوسرا واقعہ جنوری کے پہلے ہفتے کے دوران سینٹ آف پاکستان میں پیش آیا۔ مسلم لیگ ن کے آصف کرمانی تقریر کر رہے تھے۔ آصف کرمانی ممتاز مسلم لیگی رہنما اور محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھی سید احمد سعید کرمانی کے صاحبزادے ہیں۔ آصف کرمانی اپنے خاندان کی نظریاتی وابستگی کو پارٹی کے اندر بھی فخریہ بیان کرتے ہیں‘ یہ ان کی جماعت کا نہیں بلکہ ان کا خاندانی فخر ہے جس کا دفاع وہ کرتے ہیں۔انہوں نے دوران خطاب قائد اعظم کا ذکر کیا تو سینٹ کے کسی رکن نے اس پر اعتراض کر دیا۔معترض رکن کی شکل ہم ویڈیو میں نہیں دیکھ پائے‘ بس چیئرمین سینٹ اور آصف کرمانی اسے حاجی صاحب کہہ کر خاموش ہونے کا کہتے رہے۔آصف کرمانی نے جب کہا کہ حاجی صاحب آپ کے اور میرے بزرگوں نے ریفرنڈم میں قائد اعظم کا ساتھ دیا ہے تو موصوف حاجی صاحب نے ایوان میں برملا کہا کہ ان کے بزرگوں نے ہرگز قائد اعظم کا ساتھ نہیں دیا اور نہ انہیں تسلیم کیا۔یہ اے این پی کے سینٹر حاجی ہدایت اللہ تھے ۔اے این پی کو پی ڈی ایم حکومت میں گورنر شپ کی آس تھی ، اب وہ قائد کے متعلق ناقابل قبول بیانئے کا پلیٹ فارم بن کر بطور اتحادی فائدہ اٹھا رہی ہے، سیاسی سمجھوتوں کی یہ شکل کسی طور درست نہیں۔ بہت سال پہلے میرے ایک ملنے والے صحافی نے کتاب شائع کی۔اس کتاب(برصغیر کیسے ٹوٹا) میں قیام پاکستان اور قائد اعظم کے حوالے سے وہ تمام اعتراضات موجود تھے جو پاکستان اور قائد اعظم کے مخالفین نے کسی علمی بحث ‘ تحریر ‘ گپ شپ یا افواہوں کی صورت میں پھیلا رکھے ہیں۔کتاب میں ان نامور افراد کے انٹرویو شامل تھے جو اعتراضات کے حق یا مخالفت میں بات کر سکتے تھے۔کتاب میں کمی یہ محسوس ہوئی کہ تحقیق اور علمی سطح کے نکات ان شخصیات سے پوچھے گئے جو قائد اعظم کی عقیدت مند تو تھیں لیکن تحقیق سے متعلق نہ تھیں۔میرا دل خراب ہو گیا۔مجھے لگا کہ میرے ساتھی صحافی نے اپنی تحقیقی صلاحیت کو قائد اعظم کی شخصیت کے خلاف استعمال کیا ہے۔معلوم نہیں کیوں اور کیسے میرے اندر علمی مباحث پر ردعمل دینے کا رویہ بہت شروع میں پیدا ہو چکا تھا۔شائد میرے اساتذہ کی تربیت تھی۔میرا ردعمل زبانی سے زیادہ تحریری ہوتا ہے۔اس کتاب کے آنے کے بعد میں نے اردگرد دیکھا کہ کن شخصیات سے ان سوالوں کا جواب لیا جا سکتا ہے۔آپس کی بات ہے مجھے ڈاکٹر صفدر محمود کی تاریخ نویسی کبھی متاثر نہ کر سکی۔ دوسرے حسن جعفر زیدی تھے۔زیدی صاحب ’’پاکستان کی سیاسی تاریخ‘‘ لکھ کر محققین کی توجہ حاصل کر چکے ہیں۔اطہر ندیم صاحب کی وجہ سے زیدی صاحب سے نیاز مندی بھی تھی۔ میں نے زیدی صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ قائد اعظم نے میٹرک نہیں کیا تھا اور اگر یہ درست ہے تو پھر لنکن ان میں داخلے کے لئے انہوں نے داخلہ کیسے لے لیا؟ زیدی صاحب نے جواب دیا کہ اس زمانے میں لنکن ان میں داخلہ میٹرک یا گریجوایشن کے موجودہ معیارات کی بنیاد پر نہیں دیا جاتا تھا بلکہ طالب علم میں مخصوص ذہنی و علمی استعداد کا جائزہ لے کر داخل دیدیا جاتا۔یہ درست ہے کہ قائد اعظم نے میٹرک کا امتحان نہیں دیا کیونکہ برطانیہ میں انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔دوسرا سوال یہ تھا کہ قائد اعظم ایک عام سے وکیل تھے لیکن انہوں نے اتنی دولت کیسے کما لی۔اس سوال کے ذریعے یہ تاثر ابھارا جاتا ہے کہ قائد مالیاتی اعتبار سے شفاف ریکارڈ نہیں رکھتے تھے ۔حسن جعفر زیدی صاحب نے اس کا جواب یوں دیا کہ قائد اعظم عام وکیل ہرگز نہیں تھے۔وہ لندن میں پریوی کونسل میں ہندوستانی ریاستوں کے تنازعات میں بطور وکیل پیش ہوتے رہے۔پھر وہ بمبئی میں پھٹہ لگانے والے وکیل نہیں تھے۔قائد اعظم کارپوریٹ وکیل تھے۔بڑے بڑے افراد سے تعلق کی وجہ سے کاروباری اداروں کے قانونی امور کو دیکھتے۔کارپوریٹ وکیل آج پاکستان میں بھی کروڑوں کماتے ہیں۔کتاب میں قائد اعظم پر انگریز کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی دھرا گیا۔زیدی صاحب نے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔ان سے دو ملاقاتوں پر مشتمل مصاحبے نے زہریلے اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کو غیر موثر بنا دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ متوازی تاریخ کا نام لینے والے کن ذرائع کو دلیل کا حصہ بناتے ہیں لیکن مورخ کا یہ اصول ہوتا ہے کہ وہ حتمی فیصلہ نہیں کرتا۔وہ بس اپنا جواب دیتا ہے۔حتمی فیصلہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پاکستان اور بانیان پاکستان کے متعلق ہر الٹی سیدھی رائے کو تحقیقی نتیجہ سمجھ کر اسے قبول کر لیں۔ مجھے لاہور میں پی ڈی ایم کا وہ جلسہ یاد ہے جس میں محمود اچکزئی نے پنجابیوں پر بے جا اعتراضات کئے۔میں نے چار قسطوں میں انہیں جواب دیا تھا لیکن مسلم لیگ کی مقبول قیادت مریم نواز‘ نواز شریف اور شہباز شریف کی طرف سے اپنی صفوں اور جلسوں میں سے ابھرنے والی ان آوازوں پر لب کشائی نہ ہو سکی۔