معزز قارئین!۔ چیئرمین’’پاکستان کلچرل فورم اسلام آباد ‘‘برادرِ عزیز ، ظفر بختاوری ، اسلام آباد اور دُنیا بھر میں پاکستان کے غیر سرکاری سفارت کار ہیں اور 1982ء سے 9 جنوری 2019 ء تک 50 سے زیادہ بیرونی مُلک انہیں "State Guest" کے طور پر مدّعو کر چکے ہیں لیکن، دو روز قبل اُن کی ’’ دعوتِ افطار و گفتار‘‘ میں صِرف پاکستانی ( مسلمان خواتین و حضرات) مدّعو تھے۔زیادہ تر قانون دان ، ریٹائرڈ ، سِول اینڈملٹری افسران "Businessmen" اور "Businesswomen" ۔ اسلام آباد کے خوبرو نوجوان ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات چودھری ، مہمان خصوصی تھے اوردوسرے مہمانین ِخصوصی میں شامل تھے ’’اسلام آباد چیمبر آف کامرس انڈسٹریز ‘‘ کے صدر جناب احمد حسن مُغل اور دوسرے صاحبان اعجاز احمد اور اسد عزیز بھی ۔ ضلع گجرات کے موضع ’’بھدر ‘‘ کے "Punjabi Speaking" ڈپٹی کمشنر نے تقریب سے ’’نستعلیق اردو‘‘ میں خطاب کر کے اُنہوں نے ، مہمانین اور مجھے بھی ، وَرطہ حیرؔت میں ڈال دِیا۔ میرے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے ، میرے ہمزاد ؔ کی حیثیت سے سرگوشی کرتے ہُوئے کہا کہ کھلاتے ہیں ہم ، گُلستاں ،کیسے کیسے ؟ ہیں پنجابیؔ، اہلِ زَباں کیسے کیسے؟ …O… معزز قارئین!۔میری بھی مادری اور "Fatheri" زبان ۔ پنجابی ہے ۔ میری نظم کا ایک شعر ہے … پنجابی ماں بولی میری، قومی زَبان اے اُردو! جَدوں مَیں، پردیساں وِچّ ہواں، میری پچھان اے اُردو! …O… ’’ دعوتِ افطار و گفتار‘‘ کے بعد جب ،مَیں ’’سامانِ سفر ‘‘ باندھنے ہی والا تھا کہ ’’ برادرِ عزیز ظفر بختاوری نے میرا ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات چودھری سے تعارف کراتے ہُوئے کہا کہ ’’ اِن سے ملیئے !۔ میرے بڑے بھائی اثر چوہان صاحب ، نامور صحافی اور شاعر‘‘۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ محترم اثر چوہان صاحب!۔ افطار پارٹی میں موجود میرا "Cousin" اور آپ کا اسلام آبادی داماد معظم ریاض چودھری مجھ سے آپ کا پہلے ہی غائبانہ تعارف پہلے ہی کرا چکا ہے ‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ عزیز ِ گرامی !۔ مَیں بھی آپ کی طرح ’’اردو سپیکنگ پنجابی ہُوں لیکن، آپ کی طرح اردو بولنے کا ڈھنگ ابھی تک نہیں آیا‘‘۔ اِس راز کا مجھے بعد میں پتہ چلا کہ ’’ پنجابی ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ۔ صوبہ سرحد کے نامور پختون لیڈر (مرحوم) جناب بشیر احمد بلور کے داماد ہیں ‘‘ تو، مَیں نے حمزہ شفقات چودھری کی ’’بین اُلصوبائی ہم آہنگی ‘‘کو داد دِی۔ ’’دعوتِ افطار و گفتار ‘‘ میں اور میرے ایک دیرینہ دوست میاں شبیر انور ایک ہی میز پر بیٹھے تھے ۔ اِس طرح کے دوستوں کے بارے میں مَیں اکثر کہا اور لکھا کرتا ہُوں کہ ’’ میری قبل از مسیح سے اُن سے دوستی ہے لیکن، ملاقات دو سو یا تین سو سال کے بعد ہوتی ہے ‘‘ ۔ ابھی ہم مصروف گفتگو تھے کہ ، میزبان ظفر بختاوری بھی ہمارے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ مَیں عرض کر رہا تھا کہ ’’ عجیب بات ہے کہ ، میری پہلے ظفر بختاوری کے والد صاحب ، تحریکِ پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن جناب غلام نبی بختاوری سے دوستی ہُوئی اور پھر ظفر بختاوری سے اِسی طرح پہلے میری دوستی میاں شبیر انورکے والد صاحب ، تحریکِ خلافت اور تحریکِ پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن میاں حیات بخش ؒسے ہُوئی اور پھر میاں شبیر انور سے‘‘ ۔ اِس پر ہماری "Table Fellow"۔ اسلام آباد کی معروف "Businesswoman" بیگم شبانہ اسد نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ’’ اثر چوہان صاحب!۔ آپ کا دوستی کا یہ ڈھنگ مجھے بہت اچھا ہے ‘‘۔ مَیں نے اُن کا شکریہ ادا کر دِیا۔ معزز قارئین!۔ ماشاء اللہ (حیات ) ، چکوال کے 95 سالہ جناب غلام نبی بختاوری قیام پاکستان کے بعد امرتسر سے ہجرت کر کے سرگودھا میں "Settle" ہُوئے ۔ پہلے اُن کی تحریکِ پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان سے دوستی ہُوئی اور پھر مجھ سے ۔ جب، جنابِ مجید نظامی نے مجھے فروری 1964ء میں سرگودھا میں ’’نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں ، قائداعظمؒ کی ہمشیرۂ ’’مادرِ ملت ‘‘ محترمہ فاطمہ جناحؒ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں ۔ چاچا غلام نبی بختاوری نے ، سرگودھا میں تحریکِ پاکستان کے دوسرے کارکنوں کے ساتھ مل کر ’’مادرِ ملّت ‘‘ کی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لِیا تھا ۔ نومبر 1965ء میں چاچا غلام نبی بختاوری نے اپنا کاروبار اسلام آباد شفٹ کرلِیا ۔ مَیں نے 11 جولائی 1973ء کو لاہور سے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا تو ، میرا اسلام آباد جانا ، آنا بہت ہوگیا اور پھر میری چاچا غلام نبی بختاوری اور 1982ء سے ’ ’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ کے چیئرمین برادرِ عزیز ظفر بختاوری سے دوستی کی تجدید ہوگئی اور ظفر بختاوری کے دونوں چھوٹے بھائیوں ، زاہد بختاوری اور عابد بختاوری سے بھی ۔ 1988 ء کے اواخر میں میرے دورۂ سوویت یونین کے بعد میری کتاب ’’ دوستی کا سفر‘‘ شائع ہُوئی تو، چیئرمین ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ ظفر بختاوری نے اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں اُس کی تقریب ِ رونمائی کا اہتمام کِیا۔ مہمانِ خصوصی ، پاکستان میں سوویت یونین کے سفیر "Excellency Abdurrahman Khalil oglu Vazirov" نے مجھے ’’ دوستی کا قلم ‘‘ (Pen of the Friendship) پیش کِیا۔ معزز قارئین!۔ جولائی 1995ء میں میرے کالموں کا پہلا انتخاب ’’ سیاست نامہ اوّل‘‘ شائع ہُوا اور جولائی 2006ء میں ’’ سیاست نامہ دوم‘‘ ۔ ’’ سیاست نامہ اوّل‘‘ کا انتساب ، مَیں نے انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن اپنے ’’دوستِ اوّل‘‘ سیّد انورمحمود کے نام کِیا اور ’’ سیاست نامہ دوم ‘‘ کا انتساب اپنے ’’دوست ِدوم ‘‘ اشفا ق احمد گوندل کے نام۔ برادرِ عزیز ظفر بختاوری نے میری اِن دونوں کتابوں کی رسمِ رونمائی کا بھی اہتمام کِیا اور میرے اصرار کے باوجود سارے اخراجات خُود ہی برداشت کئے۔ میرے پنجابی جریدہ ماہنامہ ’’ چانن‘‘ لاہور کے اگست 2011ء کے شمارے میں میری ایک نظم شائع ہُوئی تھی، جس میں مَیں نے ’’ہیر رانجھا ‘‘ کی لوک کہانی کی ہیروئن جھنگ سیاؔل کے معاشی مسائل کو ’’اگست 2011ء کے دَور‘‘ کی’’ ہیروں‘‘ کے معاشی مسائل میں ڈھال کر ’’ہیر کی زبانی ‘‘ بیان کِیا تھا۔ میاں شبیر انور کو میری یہ نظم بہت پسند آئی تھی ، اُنہوں نے وہ نظم اپنے بٹوے میں رکھ لی تھی اور جب بھی اُنہیں کسی محفل میں موقع ملتا اُسے سُناتے ۔ 2012ء میں میاں شبیر انور لندن کے ’’پاکستان ہائی کمیشن ‘‘ میں "Minister for Information" تھے ۔ مجھے اُنہوں نے لندن کے ایک با اثر پاکستانی ’’ چیئرمین ورلڈ کانگریس آف اوور سیز پاکستانیز‘‘ سیّد قمر رضا سے ملوایا۔ اُنہوں نے میرے اعزاز میں بڑے پیمانے پر عشائیہ کا اہتمام کِیا۔ لندن میں "Settle" میرا قانون دان بیٹا انتصار علی چوہان مجھے ساتھ لے گیا۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ ’’ سیّد قمر رضا صاحب اُس کے "Client" ہیں ۔ پھر اچانک میاں شبیر انور نے اپنا بٹوا نکالا اور میری پنجابی نظم میرے حوالے کردِی۔ مَیں نے پڑھ دِی۔ معزز قارئین!۔ ظفر بختاوری کی دعوتِ افطار و گفتار کے بعد اُن کے وسیع و عریض ڈرائنگ روم میں پھر یہی ہُوا۔ میاں شبیر انور نے اپنے بٹوے سے میری نظم نکالی اور میرے حوالے کردِی۔ مَیں نے پھر اپنی نظم پڑھ کر حاضرین سے داد وصول کی۔ نظم کے چار بند یوں ہیں … بُھکھّن بھانے، پِھر دے بال! مسئلہ مَینڈا، روٹی، دال! رانجھا جوگی، نِرا کنگال! مَیں تے جانا، کھیڑیاں دے نال! …O… گھر وِچّ آٹا، نئیں ، اِک ڈنگ دا! رانجھا مَیتھوں، چُوری ؔمنگدا! کِتّھے پھس گئی، ہِیر سِیال! مَیں تے جانا، کھیڑیاں دے نال! …O… بیلے جاواں، جی نئیں کَردا! وَنجھلی سُن سُن، ڈِھڈّ نئیں بَھردا! بھاویں گاون، تال بے تال! مَیں تے جانا، کھیڑیاں دے نال! …O… بے رُزگاری دا، ماریا رانجھا! میرا ، اوس دا، بھلا کیا سانجھا؟ کیوں نہ ہوواں، مالا مال! مَیں تے جانا، کھیڑیاں دے نال ! …O… معزز قارئین!۔ میری فرمائش پر برادرِ عزیز ظفر بختاوری (اپنے دونوں بیٹوں احسن ظفر بختاوری اور وقار ظفر بختاوری کو ساتھ لے کر) مجھے اور معظم ریاض چودھری کو اپنے چھوٹے بھائی عابد بختاوری کے گھر لے گئے۔ مَیں نے سوا سال بعد چاچا غلام نبی بختاوری سے ایک بھرپور جپھّی ڈالی تو، مجھے اپنے والد صاحب کی جپھّیاں یاد آگئیں۔ کِتنا خوش قسمت ہُوں مَیں؟۔