9 جولائی کو اندرون و بیرون پاکستان قائداعظمؒ کی ہمشیرہ ، مادرِ ملّت کی 52 ویں برسی منائی گئی۔ اِس بار پہلی مرتبہ نواسۂ بھٹو اور نبیرۂ حاکم علی زرداری ۔ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اَن جانے میں ، یا جان بوجھ کر ایک ایسا کمال ہوگیا جس نے مرحوم بھٹو کی سیاسی تاریخ اور آنجہانی حاکم علی زرداری کا جغفرافیہ بدل دِیاہے ۔ 9 جولائی کو پاکستانی وقت کے مطابق چھ بجے شام مجھے لندن میں کئی سال سے "Settle" میرے قانون دان بیٹے انتصار علی چوہان کا فون آیا اور اُس نے مجھے کہا کہ ’’ ابو جی! ۔ فلاں نجی نیوز چینل (A.R.Y) پر بلاول بھٹو زرداری کی زبانی ، قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی تعریف و توصیف سُن کر انہیں داد ضرور دیں!‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں اُس نجی چینل پر بلاول بھٹو کی زبانی ، قائداعظم محمد علی جناحؒ اور مادرِ ملّت ؒ کی تعریف و توصیف سُن کر بہت خُوش ہُوا اور اُس خُوشی میں مَیں آپ سب کو بھی شامل کر رہا ہُوں ۔ مَیں نے اُس نجی چینل کے "Web Desk" پر مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی باوقار اور خوبصورت تصویر دیکھی اور اُس کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری کی ۔ ویب ڈیسک کی طرف سے تو انگریزی زبان میں ایک طویل خبر لکھی / شائع کی گئی ہے لیکن، مَیں اُس کاانگریزی زبان ہی میںاُس کا "Gist" (خلاصہ ) پیش کر رہا ہُوں۔ لکھا ہے کہ۔ "ISLAMABAD:Presenting tribute to the mother of nation on her death anniversary, Bilawal Bhutto-Zardari said "Pakistan Peoples Party is the continuation of the struggle of late Fatima Jinnah". The PPP chairman said Fatima Jinnah was the great daughter of the land and a reflection of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah. To safeguard the ideology of democracy, Fatima Jinnah confronted the dictator of her time", Bilawal said"۔ آپ کو زحمت تو ہوگی لیکن، میرے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ مَیں نواسۂ بھٹو کی خبر اور اُن کی انگریزی کا اردو میں بھی ترجمہ پیش کردوں!… اسلام آباد۔ ’’مادرِ ملّتؒ کی برسی پر اُن سے اظہار عقیدت کرتے ہُوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی جدوجہد کا تسلسل ہے‘‘۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا کہ ’’ محترمہ فاطمہ جناحؒ ، برصغیر پاک و ہند کی دُخترِ عظیم تھیں اور حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شَبیہ ‘‘۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ’’ نظریۂ جمہوریتؔ کے تحفظ کے لئے مادرِ ملّتؒ نے اپنے وقت کے ڈکٹیٹر ( فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان ) کا مقابلہ کِیا‘‘۔ معزز قارئین!۔ تاریخ پاکستان کا ریکارڈ کوئی ایک شخص تبدیل نہیں کرسکتا؟۔ تاریخ تو یہ ہے کہ ’’ 7 اکتوبر 1958ء کو پاکستان کے پہلے منتخب صدر میجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے ، ملک میں مارشل لاء نافذ کِیا اور آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کردِیااور اپنی مارشلائی کابینہ میں لاڑکانہ کے جاگیر دار وکیل ذوالفقار علی بھٹو کو بھی شامل کرلِیا۔ اُس کے فوراً بعد وفاقی وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے صدر سکندر مرزا کو یہ خط لکھا کہ ’’ جنابِ صدر !۔ آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں ‘‘۔ 20 دِن بعد 27 اکتوبر کو جنرل محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف / جلا وطن کر کے لندن بھجوا دِیا تو، جنابِ بھٹو اُن کی مارشلائی کابینہ میں بھی شامل رہے ۔ اُنہوں نے صدر ، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ، صدر محمد ایوب خان کو اپنا "Daddy" بنا لِیا۔ 2 جنوری 1965ء کو صدر جنرل محمد ایوب خان نے صدارتی انتخاب کرانے کا اعلان کِیا لیکن، اُنہوں نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے صِرف 80 ہزار ارکانِ بنیادی جمہوریت ہی کو ، صدارتی انتخاب میں ووٹ دینے کا حق دِیا۔ کونسل مسلم لیگ اور پھر متحدہ اپوزیشن کی امیدوار مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ ، صدارتی امیدوار میں ، فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابل تھیں ۔ (شاید بلاول بھٹو کو نہیں بتایا گیا ) ۔ ’’صدر محمد ایوب خان کو ، نہ جانے کس نے خوفزدہ کردِیا تھا کہ ’’ فیلڈ مارشل کی حیثیت سے آپ سرکاری ملازم ہیں اور ممکن ہے کہ ’’ الیکشن کمیشن آف پاکستان ‘‘آپ کو صدارتی انتخاب کے لئے نااہل ہی نہ قرار دے دے؟‘‘۔ فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان خوفزدہ ہوگئے اور اُنہوں نے اپنے دو وزراء ذوالفقار علی بھٹو اور محمد شعیب کو اپنے Covering Candidates"۔ نامزد کردِیا اور خود فیلڈ مارشل کے عہدے سے بھی مستعفی ہوگئے تھے ۔ اگر مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہر عاقل اوبالغ شہری (مرد اور عورت ) کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوتا تو ، صدر محمد ایوب خان کی تو، ضمانت ہی ضبط ہو جاتی۔ معزز قارئین!۔ بقول بلاول بھٹو ’’مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ ، حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ "Reflection" (شَبِیہ) تھیں‘‘۔ قیام ِپاکستان کے بعد ’’گورنر جنرل آف پاکستان ‘‘ کی حیثیت سے قائداعظمؒ نے دواہم کام کئے تھے ۔ ایک تو یہ کہ ’’ آپ ؒ نے اپنی جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا ‘‘اور دوسرا یہ کہ ’’ آپ ؒ نے اپنے شانہ بشانہ قیام پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والی اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو مسلم لیگ اور حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا ‘‘ لیکن، نواسۂ بھٹو کو شاید اُن کے کسی بھی اتالیقؔ / سیاسی اُستاد نے نہی بتایا تھا کہ ’’ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے جب 30 نومبر 1967ء کو اپنے دو اڑھائی سو ساتھیوں اور عقیدت مندوں کی حمایت سے ’’پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ تو قائم کرلی تھی اور اُس کے چار راہنما اصولوں میں ایک اصول یہ بھی تھا کہ ’’ جمہوریت ہماری سیاست ہے ‘‘۔ ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ جنابِ بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنی پارٹی کے انتخابات کبھی نہیں کرائے اور موصوف قصور کے نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں ’’ بڑے ملزم‘‘ کی حیثیت سے جیل جانے سے پہلے اپنی اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئرپرسن نامزد کردِیا تھا۔ پھر نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن نامزد کردِیا ، حالانکہ پارٹی کے اساسی دستور میں شرییک چیئرپرسن کا کوئی بھی عہدہ نہیں تھا ۔پھر محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں کمال یہ کِیا کہ ’’ 9 دسمبر 1993ء میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی ’’ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی‘‘ کے 33 ارکان کا اجلاس طلب کر کے ، اپنی والدہ محترمہ (بیگم نصرت بھٹو )کو برطرف کر کے خُود پارٹی کی چیئرپرسن منتخب ہوگئی تھیں؟۔ بلاول بھٹو صاحب ! آپ نہیں جانتے ؟ کہ ’’ پاکستان پیپلز پارٹی کی جس سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے جس اجلاس میں آپ کی والدۂ محترمہ نے اپنی والدہ ٔ محترمہ۔ آپ کی نانی صاحبہ (Maternal Grandmother) بیگم نصرت بھٹو کو برطرف کِیا تھا ، اُنہیں اُس اجلاس کی کانوں ، کان بھی خبر نہیں ہُوئی تھی؟‘‘۔ اہم بات یہ کہ ’’ محترمہ بے نظیر بھٹو جب تک زندہ رہیں اُنہوں نے اپنے شوہر نامدار کو اپنی پارٹی ( پاکستان پیپلز پارٹی) کا کوئی بھی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ اُس کے بعد جو کچھ کِیا وہ ، آپ کے والدِ محترم نے کِیااور جو کچھ ہوگا اُنہی کے ساتھ ہوگا۔ موصوف خُود کہہ چکے ہیں کہ ’’ مَیں نہ ہوں گا تو میرا بیٹا بلاول بھٹو ہوگا اور اُس کے بعد آصفہ بھٹو‘‘۔ موصوف نے بختاور بھٹو زرداری کا نام کیوں نہیں لِیا؟۔ یہ اُنہیں معلوم ہوگا؟۔پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ’’ زرداری / بلاول پارٹی ، مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی جدوجہد کا تسلسل ہے؟‘‘۔ بدنام حاکم زرداری؟ معزز قارئین!۔ دسمبر 2018ء کے اواخر میں مختلف صحافیوں / اینکرز پرسنز کو بلاول بھٹو زرداری کے دادا آنجہانی حاکم علی زرداری کی"Video Film" بھجوائی گئی جس میں اُنہوں نے نہ صِرف قائداعظم محمد علی جناحؒ بلکہ اُن کے والدِ محترم جناح پونجا ؒ کے خلاف زبان درازی ،ہذیان گوئی ، دردہ دہنی ، الزام تراشی، بہتان اور تہمت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے خُود کے لئے بدنامی اور رُسوائی حاصل کر لی تھی ۔ وہ بدنامی اور رُسوائی بلاول بھٹو زرداری کا بھی پیچھا کرے گی۔ محض قائداعظمؒ اور مادرِ ملّت ؒ کی تعریف و توصیف سے کام نہیں چلے گا۔ ہاں ! اگر اُن کے والدِ محترم جناب آصف علی زرداری کے پاس کوئی ’’نُسخہ ‘‘ہو تو مَیں اُس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا؟۔