ہمارے ایک انکل ہیں فضلی صاحب ، رشتے میں دورپار کے اور تعلق میں بہت قریبی۔ انکل فضلی بیک وقت ایک قابلِ رشک اور اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہ ریٹائرڈ سرکاری افسر ہیں۔ان کا فارم ہائوس ٹائپ بڑا سا بنگلہ ہے جہاں یہ اپنی چھوٹی سی فیملی کے ساتھ رہائش پزیر ہیں ۔ اعلیٰ برینڈ کی دو تین نئی گاڑیاں ہیں ۔ بظاہر ہر آسائش ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہے لیکن ایک چیز جو اُن کی زندگی میں سِرے سے مفقود ہے وہ چین اور سکون ہے ۔ بظاہر وہ اس کا اظہار نہیں کرتے لیکن یہ چیز اُن کے چہرے سے چھلکتی ہے ۔ انکل فضلی نظم وضبط اور وقت کی پابندی کے بڑے قائل ہیں ۔ ان کے بقول انہیں زندگی میں اور دوران سروس جو کامیابیاں ملیں وہ اُن کے سخت ڈسپلن کی مرہونِ منت ہیں ۔ یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن ہمارے خیال میں اُن کی زندگی میں بے چینی او ر اضطراب کی وجہ بھی شاید اُن کا یہی طرزِ حیات ہے ۔ اُن کی اپنی شخصیت اُن کے بے رحمانہ قسم کے ڈسپلن کے نیچے کہیں دب کے رہ گئی ۔ وقت کا خیال وہ منٹوں نہیں سیکنڈوں کے حساب سے رکھتے ہیں ۔وقت کا اس قدر باریک بینی سے دھیان رکھنے سے بظاہر لگتا ہے کہ اُن کے وقت کا بہت کوئی تعمیری مصرف ہو گا لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کے وقت کا صرف ایک ہی استعمال ہے اور وہ گھر والوں اور ملازموں کے کاموں کا خوردبین سے جائزہ لیتے رہنا اور اُن کی کسی لغزش کا شدت سے انتظار کرتے رہنا تاکہ انہیں بروقت اور تسلی بخش انداز میں ڈانٹ سکیں ۔اذیت دہی اور ڈانٹ ڈپٹ کو فضلی صاحب نے ایک ’ فن ‘ کا درجہ دے دیا ہے ۔سو ! وقت کا ایسا ’ تعمیری ‘ استعمال میں نے اُن کے سوا کہیں اور نہیں دیکھا۔ کہیں آنا جانا ہو تو گھر والوں پہ ایک عذاب آیا ہوتا ہے ۔انہوں نے گھر والوں کو اگر شام چھ بجے کا وقت دیا ہے تو وہ عین چھ بجے ڈرائیور سے کہیں گے کہ گاڑی چلا دے ۔ اس دوران گھر والوں میں سے کوئی تیار ہو کے آ گیا ہو تو ٹھیک ورنہ وہ اکیلے ہی نکل کھڑے ہوتے ہیں اور وقت سے پہلے وہاں پہنچ جاتے ہیں بے شک آگے کوئی ’’ رسمِ حنا ‘‘ کی تقریب ہی ہو رہی ہو جہاں اُن کا جانا اتنا ضروری بھی نہیں تھا ۔ فضلی صاحب دفتر کے آدمی ہیں ۔ وہ صبح سویرے وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے دفتر پہنچ جاتے تھے اور پھر واپسی کا کوئی وقت نہیں تھا ۔ اُن کو وقت پہ دفتر بھیجنے میں اُن کے گھر والوں کا بھی بڑا عمل دخل رہا ۔ شنید ہے دفتری اوقات میں گھر کا ماحول بے حد پُرسکون رہتا تھا ۔ عمر بھر وہ فائلوں میں گُم رہے ۔ انگریزی زبان پر کمال مہارت اور ڈرافٹنگ اُن کا خاص طُرّہ امتیاز ہے ۔ اُنہوں نے اپنی شُستہ انگریزی پر ہمیشہ اور بجا طور پہ فخر کیا۔ دفتر میں تو اس پائے کے مخاطب موجود تھے جو اُن کی بات کو سن سمجھ سکیں لیکن اب ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے شوق اور عادت کے ہاتھوں مجبور ہوکے ظُلم یہ کرتے ہیں کہ اپنے مالی کے ساتھ بھی دس دس منٹ انگریزی بول رہے ہوتے ہیں ۔اور اُس سے بڑھ کے ظُلم یہ ہوتا ہے کہ وہ آگے سے اُسی زبان میں باقاعدہ جواب بھی دے رہا ہوتا ہے ۔ انکل نے زندگی بھر کوئی دوست نہیں بنایا۔ کوئی سوشل لائف نہیں ۔اُن کی آدم بیزار طبیعت کا عالم یہ ہے کہ کسی دوسرے سے تو کیا خود اپنے آپ سے بھی نہیں ملتے ۔انہیں مطالعے کا کوئی شوق نہیں۔انہوں نے عمر بھر نصاب کے علاوہ شاید ہی کوئی کتاب پڑھی ہو ۔ وہ صبح صبح نہا دھو کے، شیو کرکے تیار ہوکے ایسے بیٹھ جاتے ہیں کہ ابھی یہاں اُن کی سربراہی میں کوئی بہت اہم اور غیر معمولی کام شروع ہونے والا ہے ۔وہ شام تک ایسے ہی رہتے ہیں اور کوئی غیرمعمولی تو کیا معمولی کام بھی کرنے کو نہیں ہوتا۔ اس دوران محسوس یہ کرتے اور کرواتے ہیں کہ اُن جیسا مصروف کوئی نہیں ۔ فضلی صاحب کو جو بات شاید اب تک سمجھ نہیں آرہی اور نہ وہ سمجھنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ اُن کی سرکاری حیثیت ریٹائرمنٹ کے بعد ختم ہوچکی ہے اور یہ کہ فیملی کے ساتھ وقت گزارنے اور آفیشیل میٹنگز کرنے میں تھوڑا فرق ہوتا ہے ۔ دوران سروس ملازموں ماتحتوں کی ایک فوج تھی جو ہمہ وقت اُن کی جی حضوری میں لگی رہتی تھی ۔ اب یہ سب قصہ پارینہ ہوا۔ اب گھر میں بس ایک دو ملازم رہتے ہیں ۔ ہر آنے والا ملازم بمشکل دو چار ہفتے ہی گزارتا ہے اور پھر انکل کے عجیب وغریب رویے کے باعث مذید چلنے سے معذرت کر تے ہوئے اپنی راہ لیتا ہے ۔ فضلی صاحب کے گھر والے جاتے ملازم کو بے حد حسرت اور رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے کہ اُن بے چاروں کو شاید یہ ’’ سہولت ‘‘ بھی میسّر نہیں ۔ انکل فضلی سے میری کسی حد تک بے تکلفی ہے۔اُن سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے اُن کے پاس سوائے ملازموں کے گِلے کے اور کوئی موضوع نہیں ہوتا ۔سیاست وغیرہ پہ بات کرنے کو وہ اپنے ’’قیمتی‘‘ وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں ۔ہماری دو طرفہ گفتگو بمشکل پانچ منٹ میں ختم ہوجاتی ہے ۔ پچھلے دنوں میں اُن کے پاس حاضر ہوا تو چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ یہ ڈرائیور بھی عجیب مخلوق ہیں ۔ میں نے ہنستے ہوئے عرض کیا ’’ انکل یہ بالکل درست ہے لیکن۔۔کبھی کبھی اُن سے اپنے بارے میں بھی رائے معلوم کر لیا کیجیے ۔‘‘ اس پر انہوں نے مجھے اُسی نظر سے دیکھا جس سے وہ اپنے ڈرائیور کو دیکھتے ہیں ۔ میں نے جھٹ پوچھا، ’’ کیا کیا آپ کے اس احمق ڈرائیور نے ‘‘ ؟ کہنے لگے’’ میں نے کل اسے ’’ رولڈ اوٹس‘‘ لانے کو کہا تو وہ بے وقوف کچھ اور لے کے آگیا ۔ ان کی انہی حرکتوں کی وجہ سے پچھلے چھ ماہ میں تین ڈرائیور بدل چکا ہوں ۔‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا’’ ایک دفعہ مالک کو بھی بدل کر دیکھ لیں ‘‘۔ میں نے اُن کے چہرے پہ پہلی مرتبہ مسکراہٹ دیکھی!