عروس البلاد کراچی میں ان دنوں تجاوزات اور سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ بازاروں، دکانوں اور دکانداروں کے نقشے بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ فٹ پاتھوں کی شکل و صورت نکھر کر سامنے آ رہی ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کے پیٹ میں رہ رہ کر مروڑ اٹھتا ہے او رکسی نہ کسی علاقے کے بازاروں میں دھما چوکڑی مچتی ہے اور تجاوزات کے خاتمے کے نام پر وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کے دیکھنے کو تماشائیوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں۔ کچھ عرصے کے لیے یہ صفائی ستھرائی باقی رہتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ تجاوزات کا سلسلہ ازسرنو شروع ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسی منظر کشی غلام عباس نے اپنے مشہور افسانے ’’آنندی‘‘ میں ایک نئے شہر کو بساتے ہوئے دکھایا ہے۔ نہیں کہا جا سکتا کہ اب کے تجاوزات کے خلاف جو شور مچا ہے اور خصوصاً ایمپریس مارکیٹ کو جس طرح تجاوزات سے پاک صاف کردیا گیا ہے، اس آپریشن کے خوشگوار نتائج کتنے عرصے تک باقی رہیں گے۔ پولیس اور کارپوریشن کے عملے کی مٹھی گرم کر کے کب ازسر نو تجاوزات کا بازار گرم ہوگا۔ شہر میں ایک اور مرض ون وے کے قانون کو توڑ کر رانگ سائیڈ میں گاڑی چلانے کا بھی ہے۔ ٹریفک پولیس نے ایک ہفتے تک سختی سے اس قانون کے توڑنے والوں کو سزائیں دیں اور جرمانے کے علاوہ تھانے میں لے جا کر گاڑی اور ڈرائیور دونوں کو رات لاک اپ میں گزارنے کی سزا دی۔ اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ رانگ سائیڈ پر گاڑی چلانے میں گاڑیوں نے احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے لیکن پکڑ دھکڑ اور سزائوں کا سلسلہ ایک ہفتے کے بعد موقوف کیا گیا تو قانون شکنی کے واقعات پھر اسی طرح دوبارہ شروع ہو گئے۔ وہ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ قوم ڈنڈے کی زبان سمجھتی ہے، کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ قانون کی پابندی تو قانون کے احترام کی وجہ سے کی جاتی ہے یا پھر سزا کے خوف سے۔ ہمارے وطن عزیز میں نہ قانون کی عزت و احترام ہے اور نہ اس کا خوف۔ لہٰذا قانون نافذ کرنا ہے تو سختی کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ انگریزی عہد حکومت میں قانون شکنی اس حکومت کو کمزور کرنے کے لیے کی جاتی تھی۔ گوروں کو یہ بتانے کے لیے ہم تمہارے قانون کو نہیں مانتے، اس لیے یہاں سے ہماری سرزمین سے اپنا بوریا بستر گول کرو۔ اس زمانے کی معروف سیاسی جماعتوں نے عوام کی تربیت قانون شکنی کے ذریعے کی۔ وطن جب آزاد ہوا تو سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں نے عوام کو یہ سمجھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ اب ہم آزاد ہیں اور قانون کی پابندی کر کے ہی ہم اپنی آزادی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ قانون پر عمل کرنا خود ہمارے حق میں مفید ہے اور یہ کہ قانون ہمارے مفاد میں بنایا گیا ہے۔ لہٰذا اس پر عمل کرکے ہی ہم اپنی آزادی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اس تربیت کے بجائے سیاسی جماعتوں اور مختلف گروہوں اور تنظیموں نے اپنے جائز اور ناجائز مطالبات کے لیے گھیرائو جلائو، سرکاری املاک کو نقصان پہنچائو، سینما ہائوسوں اور پٹرول پمپوں کو نذر آتش کرو کا رویہ اپنایا تاکہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔ تازہ ترین مثال دھرنوں کی ہے جس کا مقصد عوام ہی کی پریشانیوں میں اضافہ کرنا تھا اور حکومت بوکھلا کر ایسی جماعتوں سے مذاکرات کرکے ان کے مطالبات مان کر قانون شکنوں کی حوصلہ افزائی کرنے پر مجبورہوتی رہی ہے۔ ایک بڑی وجہ قانون کے احترام کے نہ ہونے کی یہ بھی ہے کہ قانون طاقتور پر نہیں، کمزور پرنافذ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جن ملکوں میں قانون طاقتوروں کے لیے مکڑی کا جالا اور کمزوروں کے لیے لوہے کا جال ہو، وہاں کوئی قانون کا احترام کرے تو کیوں؟ ہمارے وطن عزیز میں جب تک بااثر لوگوں کو قانون کے دائرے میں نہیں لایا جائے گا اور جب تک یہ نہیں ہو گا کہ قانون ملک کا سربراہ بھی توڑے تو اس پر سزا کا نفاذ اسی طرح ہو جیسے عام آدمی پر، تب تک نہ قانون کا احترام پیدا ہوگا اور نہ خوف۔ قائداعظم نے اپنی ایک ڈیڑھ سال کی گورنر جنرل شپ میں قانون کو اپنی ذات پر نافذ کیا اور ریلوے کے پھاٹک کو بھی اپنی گاڑی کے لیے کھلوانا پسند نہیں کیا۔ اس لیے تاکہ بڑے سے بڑے آدمی کو بھی قانون سے بالاتر ہونے کا موقع نہ ملے اور یہ خناس ذہن میں پیدا نہ ہو کہ میں تو فلاں اونچے عہدے پر فائز ہوں۔ قانون کی میرے سامنے بر بنائے منصب کی کیا حیثیت ہے؟ افسوس کہ قائداعظم کی زندگی نے وفا نہ کی، ورنہ یہ ملک قانون کی پابندی کرنا سیکھ لیتا تو آج قانون کی بالادستی کا مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ ملک عزیز کے دو بڑے مسئلوں میں ایک مسئلہ قیادت کا بحران اور دوسرا مسئلہ قانون کی بالادستی کا نہ ہونا ہے۔ دونوں ہی مسئلے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ قیادت اہل ہاتھوں میں ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ قانون کی بالادستی اسی وقت ہوتی ہے جب قیادت صحیح معنوں میں قیادت ہوتی ہے۔ تجاوزات کا مسئلہ کراچی ہی نہیں ملک کے تمام شہروں کا ہے۔ جب دکاندار، ساہوکار یا عام شہری اپنے گھر یا دکان یا کاروبار کو چمکانے کے لیے تجاوزات کے غیرقانونی عمل میں پڑتا ہے تو پولیس اور متعلقہ محکمہ اس سے اس قانون شکنی کے دام کھرے کرلیتے ہیں اور کرتے ہی رہتے ہیں اور پھر ایک دم ایک دن یہ محکمے جاگ اٹھتے ہیں اور تین دن کے نوٹس پر ساری تجاوزات کو ملبے کا ڈھیر بنانے کا سخت اقدام اٹھاتے ہیں لیکن ہوتا کیا ہے چند ہی مہینوں میں تجاوزات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے اور سارے کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔ اب کے تجاوزات ہٹانے کا اقدام کراچی میں سپریم کورٹ کے حکم پر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس جنہوں نے یہ ہدایت کی، آج ہیں تو کل نہیں ہوں گے۔ تو پھر کیا تجاوزات کا سلسلہ دوبارہ شروع نہیں ہو جائے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر ایک کو معلوم ہے۔ حقیقی تبدیلی اسی وقت آئے گی جب لوگوں میں شہری شعور (Civic Sense) آ جائے گا اور یہ شعور جب پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں نہیں ہے تو ناخواندہ اور نیم خواندہ طبقے میں کہاں سے آئے گا۔ اس لیے ہمارا مشورہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اپنے اس حکم کو مستقل نوعیت کی پابندی کی شکل دے دیں کہ اگر تجاوزات ہٹانے کے بعد دوبارہ اس عمل کو دہرایا گیا تو جواب دہی کی ذمہ داری کارپوریشن کی ہوگی اور تجاوزات میں ملوث قانون شکنوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ اس ڈسپلن کا اہتمام کئے بغیر تجاوزات ہٹانے اور گرانے کا عمل بامعنی اور مستقل نہ ہوگا۔