مکرمی ! آج بھی انسانیت صدارکھتی ہے،مگران کی آوازکم ہے ۔ ا نسانیت اس کے کٹورے میں موجودہے جس کے کٹورے میں پینے کوپانی کم اورکھانے کوکھانا کم ہے،جن کی جیب بھرچکی ہواورجن کے گھرکے برتن میں کھانا بھرچکا ہووہاں انسانیت کی جگہ نہیں بچتی۔دونوں کانوں سے سن کرغریب کی فریادڈگریوں اورکاغذوں میں بندکردی جاتی ہیں ،آج کے سنگین مسئلے انصاف کو صرف ٹی وی کی زینت بنا دیا گیا ہے،مگرآج بھی کوئی نہیں سوچتااس غریب کے دل پرکیا گزری ہوگی،جس کا بچہ مارا گیا،جس کی غریب بیٹی کی عزت کوسرعام بازاروں میں اچھالا گیا ہو۔غریب کی آنکھ خشک ہوجاتی ہے اس قدرپتھردل کوئی کیسے ہوسکتا ہے کوئی اس قدرکیسے ظالم اورخوف خدا سے محروم ہوسکتا ہے ۔ شائداس کوخوف خدا نہ ہومگراس دنیا کے خوف سے بہت دورتھاکیونکہ وہ جانتا تھا زیادہ سے زیادہ کیا ہوسکتا تھااس کے ساتھ دودن کی کارروائی کے بعدغریب کی فریادکودبا دیا جائے گااورپھرسے وہ پرسکون ماحول کاحصہ بن جائے گا۔ان سب واقعات سے ہم ایک آنکھ دیکھ کرچپ کرجاتے ہیں مگرہم یہ نہیں سوچتے اب ان حالات کے مدنظرہماری خودکی جان بھی محفوظ نہیں ، میںاپیل کرتی ہوں کہ ماحول ایسا میسرکریں جہاں مظلوم توسکھ کا سانس لے مگرظالم گھٹ گھٹ کرہی مرجائے ،ظالم کواس کے حتمی نتائج اس دنیا میں ہی دکھائے جائیں ۔ (جویریہ جاوید،پکی شاہ مردان میانوالی)