حال ہی میںچند ایسے و اقعات پیش آئے ہیں جن سے یہ تاثر پختہ ہوا کہ پاکستان میںعملی طور پر امیر‘ بااثر لوگوں کے لیے الگ قانون ہے جبکہ غریب‘ سفید پوشوں کے لیے الگ۔کاغذوں میں توملک میں ایک ہی قاعدہ قانون ہے لیکن اس کا اطلاق دونوں طبقوں کے لیے یکساں نہیں۔ دولت مندوں اور اثرو رسوخ رکھنے والوں کے لئے یہ قانو ن موم کی ناک ہے‘ جس طرف چاہے موڑ لو۔ آرمی چیف کے تقرر اوران کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملہ پر عدالت عظمیٰ کے فیصلہ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سترہویں صدی کے ایک برطانوی جج کاحوالہ دیاجسکا مفہوم یہ ہے کہ بادشاہ سب سے بڑا ہے لیکن قانون اس سے بھی زیادہ بڑا ہے۔کاش یہ اُصول پورے پاکستان میں لاگو ہوجائے۔ حال ہی میں ایک شرمناک واردات لاہور میں پیش آئی جب وکلاء نے دل کے ہسپتال پر حملہ کردیا‘ توڑ پھوڑ کی‘ ڈاکٹروں کو مارا پیٹا‘اس حملہ کے نتیجہ میں چار مریض علاج نہ ملنے کے باعث دم توڑ گئے۔ وکلاء کے خلاف پولیس نے قانون کے مطابق کارروائی کی تو انہوں نے عدالتوں کا بائیکاٹ کردیا‘ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے وکلاء کا جسمانی ریمانڈ تک نہیں دیا‘ سیدھا عدالتی ریمانڈ پرجیل بھیج دیا تاکہ پولیس ان سے تفتیش نہ کرسکے ۔ بعد میں لاہور ہائی کورٹ نے ان کو ضمانت پر رہا کردیا۔ اس واقعہ نے عام آدمی کی نظروںمیں ہمارے قانونی نظام کی ساکھ کومجروح کیا۔ اسی طرح سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت پررہائی اور ملک سے باہر جانے کے مقدمے عدالتوں میں جس تیزی سے سنے گئے ‘ ان کی درخواستیں جس طرح منظور کی گئیں اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ کاش ‘ عام آدمی کو بھی ایسا فوری انصاف میسّر ہو۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی انتہائی غریب افراد پر مشتمل ہے۔یہ لوگ بمشکل زندہ ہیں‘ زیادہ تر ناخواندہ ہیں۔ قانون کا ہونا نہ ہوناغریب آبادی کے لیے بے معنی ہے۔یہ نہ وکیلوں کی فیسیں ادا کرسکتے ہیں نہ عدالتوں کی۔ جس انگریزی زبان میں قانونی کارروائی ہوتی ہے وہ ان کی سمجھ سے باہر ہے۔ وہ تو اُردو بھی نہیں پڑھ سکتے ‘ صرف سُن کر سمجھ سکتے ہیں۔ اُصول یہ ہے کہ قانون ایسا ہونا چاہیے کہ جسے جتنا ممکن ہو آسانی سے سمجھا جاسکے‘ واضح ہو اور اسکی سب تک رسائی ہو۔ ہمارا نظام اسکے برعکس ہے۔ یہ لسانی امتیاز کی ایک بدترین شکل ہے۔اگر قانونی نظام اُردو یا مقامی زبانوں میںرائج کردیا جائے تو عام لوگوں کوانصاف کی فراہمی میں خاصی آسانی ہوسکتی ہے لیکن کوئی حکومت ایسا کرنے کو تیا ر نہیں۔ جو اشرافیہ ریاست پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے وہ اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کی خاطر ایسا ہونے نہیں دیتی۔ جمہوریت ہو یا آمریت ایک مخصوص طبقہ قانونی نظام سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ گزشتہ برس قصور میں کم سن بچی زینب گم ہوئی اور بعد میں مردہ پائی گئی ۔ پولیس نے اس وقت تک مقدمہ درج نہیں کیا اور لڑکی کی تلاش شروع نہیں کی جب تک لوگوں نے سڑکوں پر آکرپُر تشدد احتجاج نہیں کیا۔میڈیا نے واویلا کیا اور چیف جسٹس آف پاکستان نے پولیس کو ہدایات دیں تواس نے سنجیدگی سے تفتیش شروع کی حالانکہ یہ اس کی نارمل ڈیوٹی تھی۔ایسی متعدد مثالیں ہیں۔ پانچ برس پہلے ماڈل ٹائون لاہور میں چودہ لوگ پولیس نے سرِ عام قتل کردیے‘ مقتولین کے ورثاکی جانب سے واقعہ کا مقدمہ اس وقت تک درج نہیں کیا گیا جب تک اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف نے مداخلت نہیں کی۔ آج تک اس مقدمہ میں کسی کو سزا نہیں ملی کیونکہ اس میں بااثر سیاستدان اور پولیس افسر ملوث تھے۔اسی برس جنوری میں ساہیوال میں پولیس نے دن دیہاڑے چار افراد کو بہیمانہ طور پر قتل کردیا ۔ مقدمہ چلتا چلا جارہا ہے۔ جب ثرو ت مند‘ بااثر آدمی ملزم ہو تومدعی پر اتنا دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ یا تو مقدمہ سے دستبردار ہوجائے یا صلح کرلے۔ کراچی میں سات برس پہلے مشہور شاہ زیب قتل کیس اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ اُصول یہ ہے کہ ریاست شہریوں کو ایسے ذرائع لازمی طور پر مہیا کرے جن سے ایسے دیوانی جھگڑے کم خرچ پر اور غیر ضروری تاخیر کے بغیر حل کیے جائیں جنہیں فریقین آپس میں طے نہ کرسکتے ہوں۔ ہمارے ہاںدیوانی (سول) تنازعے بیس بیس‘ تیس تیس سال عدالتوں میںپھنسے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اُن کے فیصلے آنے سے پہلے کوئی فریق دنیا چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ قتل کے مقدموں میں ملزم اس لیے بری ہوجاتے ہیں کہ گواہ عدالتوں کا رُخ نہیں کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ گواہی دینے کے بعد ان کے اورانکے پورے خاندان کے ساتھ بہت بُرا سلوک ہوگا۔اگرگواہ موجود بھی ہوںتب بھی پولیس کی خراب تفتیش اور نچلی عدالتوں کے ججوں کی رشوت خوری کے باعث ملزم بچ نکلتے ہیں۔ ملک میں چاروں طرف بددیانتی ‘ بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ رشوت ‘سفارش کے بغیر کسی حکومتی ادارے سے کوئی جائز کام نکلوانا بھی ناممکن ہے لیکن اکثر و بیشتر کرپشن کے ملزم تکنیکی نکات کا فائدہ اٹھا کر عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔چھوٹی عدالت سے نہیں تو بڑی عدالت سے۔ جس ملک میںعام لوگوں کی جان‘ مال‘ عزت محفوظ نہ ہو‘ جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ قانون کا اطلاق سب شہریوں پر یکساں نہ ہووہاں سیاسی‘ معاشی ‘ معاشرتی ادارے غیر مؤثر‘ ناکارہ ہوجاتے ہیں۔تخمینہ ہے کہ اوسطاً ہر سال ہمارے پانچ لاکھ تعلیم یافتہ لوگ ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں کا رُخ کرتے ہیں۔یہ لوگ ہمارا قیمتی سرمایہ ہیںلیکن وہ ترجیح دیتے ہیں کہ اپنا ملک چھوڑ کر امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور کنیڈا ہجرت کرجائیں جہاں قانون اور اس کا اطلاق سب کے لیے یکساں اور مؤثر ہے‘ میرٹ کا نظام ہے‘ سفارش اور رشوت خوری عام نہیں۔ اگر یہ لوگ ملک میں کام کریں توہمارے معیارِ زندگی میں نمایاں بہتری آئے۔ ہمارے ملک میں ایک طبقہ ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتا رہتا ہے لیکن قانون کی حکمرانی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ جمہوریت کا مطلب صرف یہ ہے کہ ووٹوں کے ذریعے حکمرانوں کا انتخاب کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابات جمہوری نظام کا صرف ایک جُز ہیں ‘کُل نہیں۔اگر ہم واقعی اس ملک میں جمہوری نظام چاہتے ہیں تو شہریوں کو قانون کے یکساں اطلاق اور قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گی۔