کان پک گئے یہ سنتے سنتے کہ لاپتہ افراد کے معاملے میں قانون سے ماورا اقدام کی حمایت کرنے والے اپنے آپ کو تھوڑی دیر کے لئے ان لاپتہ افراد کے عزیز رشتہ داروں کی جگہ رکھ کر سوچیں۔ گزارش ہے کہ میں ان میں سے ہوں جن کے سگے مشرف دور میں لاپتہ کئے گئے لھذا مجھے کسی پردہ تصور پر "تھوڑی دیر" ان کی جگہ لینے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ میرا سگا بھائی 28 ماہ تک لاپتہ رہا۔ اور وہ 28 ماہ نہ تو کسی پردہ تصور پر تھے اور نہ ہی انہیں "تھوڑی دیر" کہا جا سکتا ہے۔ 2004ء میں اسے ریاست نے کراچی کی ایک پر رونق مارکیٹ سے دن دھاڑے اٹھاتے ہوئے کسی ایف آئی آر یا وارنٹ کا سہارا نہیں لیا۔ لیکن رہا کرتے وقت قانونی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے اسے بٹگرام کے تھانے کے سپرد کرکے وہاں سے رہا کیا۔ اس اقدام کے ذریعے ریاست نے گویا تسلیم کیا کہ میرا بھائی ریاست کی تحویل میں تھا۔ مجھے دوسروں کا تو نہیں پتہ، لیکن لاپتہ افراد کے معاملے میں قانون سے ماورا جانے کے جواز کا موقف میرا بنا ہی تب جب میں نے اپنے بھائی کا معاملہ دیکھا اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ موقف صرف میرا ہی نہیں ہے بلکہ اس بھائی کا بھی ہے جو 28 ماہ تک لاپتہ رہا۔ میں قانون کی دنیا کا آدمی تو نہیں ہوں البتہ دوچار بال "عسکری امور" میں ضرور سفید کر رکھے ہیں۔ مجھے نو عمری میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ عسکری امور تو کیا خارجہ امور کو بھی اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک دنیا بھر میں رو بعمل انٹیلی جنس ایجنسیز کے نظام کو نہ سمجھ لیا جائے۔ چنانچہ اس نظام کو سمجھنے کے لئے ایک طویل مطالعاتی و مشاہداتی محنت سے گزرا ہوں۔ 29 سال پر محیط اس محنت سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جس جدید دنیا میں ہمیں جینا نصیب ہوا ہے یہ اپنے کل جغرافیئے کے کسی بھی کونے کھدرے پر قانون کی کلی حکمرانی نہیں رکھتی۔ "قانون کی حکمرانی" سے عوامی سطح پر یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ قانون سے ماورا کچھ نہیں ہوگا ایک گمراہ کن تصور ہے۔ یہ بات کتاب کے جتنے بھی خلاف ہو لیکن عملا ًہے اسی طرح۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر ریاست میں ایک مقام پر جا کر قانون کی حدود ختم ہوجاتی ہیں اور قانون کی یہ حدود اس ریڈ لائن پر جا کر ختم ہوتی ہیں جس کے اس پار "نظریہ ضرورت" کی حدود شروع ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی کے باب میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور روس جیسے ترقی یافتہ ممالک کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کبھی آپ ان ممالک کے نظریہ ضرورت کی نظیریں بھی دیکھ لیجئے تو آپ پر انکشاف ہو کہ جب نظریہ ضرورت حرکت میں آتا ہے تو اپنی ہی ریاست کے صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے تابوت اٹھوانے سے بھی نہیں جھجکتا۔ ان نظیروں سے عام تو عام خاص آدمی بھی مشکل سے ہی آگاہ ہو پاتا ہے کیونکہ یہ زیر زمین دنیا کے اسرار و رموز ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری قوم کو ماموں بنانے کے لئے انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں کو لاپتہ افراد کے معاملے میں موٹے موٹے ڈائیلاگز سے نوازتے تھے لیکن یہ صرف مقبولیت حاصل کرنے کی کوششوں میں سے ایک کوشش تھی۔ یہ وہ بھی جانتے تھے کہ نظریہ ضرورت کی ریڈ لائن کے اس پار قدم رکھنے کی نہ وہ ہمت رکھتے ہیں اور نہ ہی اختیار۔ ہوا بھی یہی، کیا موٹے موٹے ڈائیلاگ بولنے کے سوا وہ کچھ کر سکے ؟ کیا کسی کو معطل، برطرف یا سزا سنا سکے ؟ نہ تو سنا سکے اور نہ ہی سنانے کا اختیار رکھتے تھے۔ پورے اعتماد کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملکوں کی بھی صرف سپریم کورٹ ہی نہیں بلکہ پورا عدالتی نظام مل کر بھی ایسا نہیں کر سکتا۔دنیا کا ہر جج جانتا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے اور اس نظام کو اس کی ضروریات کے تحت خفیہ رکھا گیا ہے اور ان خفیہ مقامات سے کسی جج کو بھی گزرنے کی اجازت ریاستیں نہیں دیتیں۔ دنیا کا ہر وہ ملک جہاں کوئی انٹیلی جنس ایجنسی وجود رکھتی ہے وہاں نظریہ ضرورت کو ایک مسلم حقیقت سمجھیں۔ قانون کی دنیا کے آدمی کے لئے قانون کا پرچار پیشہ ورانہ ذمہ داری ہے لیکن لاپتہ افراد کے معاملات قانون کی دنیا کے نہیں بلکہ ریاستی نظریہ ضرورت کے ہیں۔ اور نظریہ ضرورت تب حرکت میں آتا ہے جب قانون کبھی بھیگی بلی تو کبھی ماتمی بن جاتا ہے۔ نظریہ ضرورت کی دنیا کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کی گلیوں سے مروجہ قانون کا گزر ممنوع ہوتا ہے۔ وہاں نظریہ ضرورت کے اپنے قوانین چلتے ہیں۔ وہاں بھی صرف سزاؤں کا ہی تصور نہیں بلکہ بری ہونے کا بھی پورا پورا امکان ہوتا ہے۔ جب اظہار رائے کے مقدس نام پر عالمی طاقتوں کے ایجنڈوں کی ترجمانی کی جارہی ہوتی ہے، یا انہی طاقتوں کے اشارے پرملک کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہوتے ہیں تو قانون ہاتھ کھڑے کردیتا ہے۔ ایک دہشت گرد 100 لوگ مار دیتا ہے۔ آپ گرفتار کرکے عدالت میں کھڑا کردیجئے، عدالت ثبوت، شواہد اور گواہ طلب کرے جو پراسیکیوشن کے پاس ہوں ہی نہیں۔ عدالت اسے چھوڑ دے اور وہ جو جاکر اسی صفائی سے 100 مزید معصوم مار ڈالے۔ عدالت ایک بار پھر ثبوت، شواہد اور گواہ نہ ہونے کے سبب اسے بری کردے اور جا کر 100 مزید افراد کی جان لے لے، تو کیا اس قتل عام اور اس کے گرد جاری قانونی پہلو کو محض اس لئے قبول کیا جاسکتا ہے کہ ہم قانون پسند شہری ہیں۔ چونکہ ملزم بہت عیار ہے، وہ ثبوت نہیں چھوڑ رہا اور عدالت تو سزا ثبوت، شواہد، اور گواہوں کی بنیاد پر دیتی ہے جو دستیاب نہیں لھذا ملزم کو کھلی چھوٹ دیدی جائے۔ نہیں ! ایسا خود امریکہ میں بھی نہیں ہوتا۔ وہ چالاک و عیار دہشت گردوں سے عدالتوں کے ذریعے نہیں بلکہ سی آئی اے کے ذریعے نمٹتا ہے !