پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں ضمانت مسترد ہونے پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق نیب کی ٹیم آصف علی زرداری کو گرفتار کرنے زرداری ہائوس پہنچی تو گارڈز نے مزاحمت کی، گرفتاری کے بعد آصف علی زرداری کو نیب راولپنڈی کے خصوصی سیل میں منتقل کیا گیا ہے۔ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو فی الحال گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنے ردعمل میں کہا کہ آصف زردارکی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں تھا۔ انہوں نے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد کی گرفتاری پر ملک بھر میں یوم سیاہ منانے اور مظاہروں کا اعلان کیا۔ بلا تفریق احتساب، قانون کی عملداری اور نظام کی شفافیت لگ بھگ ہر شہری کی خواہش ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں ان چیزوں کو شامل کرتی ہیں جو عوام میں مقبول ہوں اور جن کا قوم اجتماعی انداز میں مطالبہ کرتی ہے۔ پاکستان میں 1985ء کے بعد سیاست اور بدعنوانی یکجا ہوتے گئے۔ پہلے لوگ ملک اور قوم کی خدمت کا جذبہ لے کر سیاسی جدوجہد کا حصہ بنتے تھے، اب سیاست کاروبار بن گیا۔ آج کے سینئر سیاستدانوں کا جائزہ لیں تو یہ لوگ اسی زمانے میں متحرک ہوئے۔ اکثر نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے نام پر ٹھیکیداری کمپنیاں بنا لیں، حکومتی منصوبوں میں کمیشن اور کک بیکس حاصل کیں اور اپنے ووٹروں کو سرکاری ملازمتیں فروخت کیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی کارکنوں کی جگہ ایسے کارکنوں نے لے لی جو تنخواہ دار ہیں۔ لاہور شہر کی آبادی سوا کروڑ ہے لیکن آصف علی زرداری کی گرفتاری پر یہاںبمشکل دو سو افراد ہی باہر نکلے۔ سیاسی جماعتوں نے خود کو عوام سے الگ کر کے ایسے افراد اور گروہوں سے جوڑ لیا جو سیاست کا مطلب ریاستی وسائل کی لوٹ مار لیتے ہیں۔تحریک انصاف کو احتساب کا مینڈیٹ ملا ہے۔ مثبت امر یہ ہے کہ اس بار حکومت نے قانونی عمل میں دخل اندازی نہیں کی۔ آصف علی زرداری پر اکثر ایسے مقدمات ہیں جو نواز شریف کے دور حکومت میں بنے۔ جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کا فائدہ وہ گروہ بھی اٹھاتے رہے ہیں جو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور جن کی وجہ سے انسانیت کو خطرہ لاحق ہے۔ ایف آئی اے اور نیب نے کئی ماہ کی مسلسل تحقیقات کے بعد آصف علی زرداری کو گرفتار کیا ہے۔ ان کی گرفتاری کا بظاہر کسی سیاسی معاملے سے تعلق نہیں۔ یہ ایک سادہ سا معاملہ ہے مگر ان کی جماعت اور ان کے ساتھی اس معاملے کو انتقامی کارروائی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ جس وقت آصف زرداری گرفتار ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیپلزپارٹی کے اراکین نے سپیکر ڈائس کا گھیرائو کیا اور حکومت مخالف نعرے بازی کی۔ سندھ میں مسلح افراد نے پررونق بازاروں میں داخل ہو کر زبردستی دکانیں بند کرائیں۔ پارٹی کے چیئرمین مظاہروں اور احتجاج کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ طرز عمل کسی طور ذمہ دارانہ نہیں۔ ایک جرم میں گرفتار شخص اگر کسی سیاسی جماعت کا مرکزی رہنما ہے تو کیا اسے قانون شکنی کی اجازت ہے؟ آئین اور قانون کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے اراکین اسمبلی کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ آئین کی بجائے شخصیات سے وفاداری نبھانے کو کیوں بے قرار ہیں۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف ایک زمانے میں خود جلسوں میں آصف علی زرداری کا احتساب کرنے کی بات کیا کرتے تھے۔ ان کے ساتھی پی پی اور پی ٹی آئی کو ایک دوسرے کی اتحادی کہا کرتے تھے۔ پاکستان کے عوام نے وہ لمحہ بھی دیکھ لیا کہ وہی شہباز شریف لیڈر آف دی اپوزیشن کے طور پر سپیکر سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آصف علی زرداری کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیا جائے۔ اس پروڈکشن آرڈر کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ جو مادر جمہوریت کہلاتی ہے وہاں ایسا کوئی رواج نہیں کہ کوئی رکن کسی فوجداری جرم میں پکڑا جائے اور پھر اسے اجلاس میں شریک کرنے کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔ امریکی کانگرس میں بھی ایسا کوئی اصول موجود نہیں اور تو اور ہمارے ہمسائے بھارت کی پارلیمنٹ میں سابق ڈاکو تک موجود ہوتے ہیں لیکن وہاں بھی لوک سبھا کا سپیکر کسی کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرتا۔ اہل پاکستان حیران ہیں کہ خود لیڈر آف دی اپوزیشن متعدد مقدمات میں زیر تفتیش ہیں۔ نیب کی حراست سے وہ نا معلوم فرائض کی بجا آوری کے لیے برطانیہ جاتے ہیں۔ جانے سے پہلے وہ ہر اجلاس میں شرکت کرتے اور نیب کی حراست سے زیادہ وقت پارلیمنٹ میں اپنے دفتر میں گزارتے ہیں۔ بدیہی طور پر پاکستان کا آئین اور قانون کسی گرفتار رکن کو پارلیمنٹ کے جاری اجلاس میں شرکت کے لیے سپیکر کے پروڈکشن آرڈرز کی ضمانت نہیں دیتا۔ یہ ایوان کی ایک روایت ہے جسے غالباً سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والے رکن کو تحفظ دینے کے لیے شروع کیا گیا مگر سیاست اور بدعنوانی میں تعلق مضبوط ہونے کے بعد اس روایت کا غلط استعمال عام ہو گیا۔ عمران خان وزیر اعظم ہیں۔ ان کے اتحادی بھی امتیازی قوانین اور روایات کا خاتمہ چاہتے ہیں۔اس موقع پر حکومت کو پروڈکشن آرڈر کی روایت جاری رکھنے، اسے ختم کرنے یا اس کو کچھ معاملات کے ساتھ مشروط کرنے کے لیے نظرثانی کی ضرورت ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کو لازمی اس طرف توجہ دینا چاہئے۔ آصف علی زرداری کی گرفتاری کے اگلے دن مسلم لیگ ن کے رہنما اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز بھی نیب کی گرفت میں آ چکے ہیں۔ ان گرفتاریوں نے سیاسی حلقوں کو کافی متحرک کر دیا ہے۔ گرفتار رہنمائوں کے حامی اسے سیاسی انتقام قرار دے کر احتساب کا عمل مشکوک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صائب صورت یہی ہے کہ قانون کی بالادستی تسلیم کی جائے اور اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا عدالتوں میں جواب پیش کیا جائے۔