بیت المقدس کو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان ایک خاص مقام و منزلت حامل ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم کی بعثت کے ابتدائی تیرہ برسوں اور پھر مدینہ ہجرت کے سترہ مہینوں بعد تک مسلمان مسجد الاقصی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ مسجد الاقصی ایک اور لحاظ سے بھی مسلمانوں کے لئے اہمیت کا کی حامل ہے اس کا تقدس یہ بھی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ یہاں سے معراج کے سفر پر روانہ ہوئے۔ آنحضرتﷺکو مسجدالحرام سے مسجدالاقصی لے جایا گیا تھا۔ منافقت کی انتہا دیکھیے ایک طرف قبلہ اول کے نام پر مسلمانوں کو دھوکہ دیا جاتاہے کہ فلسطین اور قبلہ اول پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گالیکن ساتھ ہی امریکااور اسرائیل کو یقین دہانیاں کروائی جاتی ہیں کہ وہ جو چاہیں کریں ہم سوائے مذمتی بیانیے کے اور کوئی اقدام نہیں کریں گے، کیا امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی امریکی حلیف عرب و دیگرممالک کی رضامندی کے بغیر ممکن تھی؟قطعا نہیں۔یہ تمام چیزیں اس بات کی غماز ہیں کہ کچھ ممالک کی اسٹریٹجی عالمی استکبار اور صہیونی امنگوں سے ہم آہنگ ہے اور ان جارحانہ کاروائیوں کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہیوہ چیز جو افلسطین پر قبضہ جاری رکھنے کے لئے صہیونی حکومت کی سازشوں کو ملیا میٹ کر سکتی ہے ،وہ مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہے۔ قبلہ اول نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام توحیدی ادیان کے لئے حرمت کا مکان ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس : ارض فلسطین یعنی انبیا کی سرزمین اس وقت غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے۔مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے ان اساسی اور بنیادی مسائل میں سے ایک ہے جس نے گزشتہ کئی عشروں سے امت مسلمہ کو بے چین کررکھا ہے۔ ارض فلسطین اس وقت سے غاصب صہیونی ریاست کے قبضے میں ہے جب سے ایک عالمی سازش کے تحت برطانیہ اوراسکے ہم نواں کی کوششوں سے دنیا بالخصوص یورپ کے مختلف علاقوں سے متعصب یہودیوں کو فلسطین کی زمین پر بسایا گیا۔ صہیونیوں کے اس سرزمین پر آتے ہی وہاں کے مقامی فلسطینی باشندوں کو کنارے لگادیا گیا اور آہستہ آہستہ فلسطینیوں پر ظلم و ستم اس سطح پر پہنچ گئے کہ فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک میں تیسرے درجے کا شہری بننا پڑا یا مجبور ہوکر انہیں ترک وطن کرنا پڑا۔ امام خمینی ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہی فلسطین کے مسئلے کو مسلمانوں کا اہم ترین مسئلہ گردانتے تھے، آپ نے انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی فلسطین کے حوالے سے امت مسلمہ کی بیداری کے لئے کئی اقدامات انجام دیئے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تہران میں فوری طور پر اسرائیل کا سفارتخانہ ختم کرکے فلسطین کا سفارتخانہ قائم کیا گیا اور فلسطین کے مسئلے کے حل اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے نئی انقلابی حکومت نے فلسطینی قوم کی ہر طرح کی اخلاقی ، سیاسی اور سفارتی امداد کرنے کااعلان کیا اسی دوران امام خمینی کی دور اندیش قیادت نے فلسطین کے مسئلے کو عالمی اور تمام امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ قرار دینے کے لئے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھرمیں فلسطینی مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے یوم القدس منانے کا اعلان کیا جمع الوداع کے دن یوم القدس منانے کے اعلان نے دنیا بھر میں ایک بار پھر فلسطین کے مسئلے کو زندہ کردیا۔ غاصب صہیونی ریاست کے اپنے ناجائز قیام سے لے کر اب تک اگر مظلوم فلسطینیوں پر روا رکھے جانے والے انسانیت سوز اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسرائیل نے آج تک جو کچھ کیا ہے اس کے پیچھے مغرب اور امریکہ کی بھرپور حمایت تھی"۔اسرائیل کے مظالم کے خلاف عالمی اداروں میں کئی دفعہ قراردادیں آئیں لیکن امریکہ نے کبھی بھی ان قراردادوں کو منظور نہیں ہونے دیا اگر کبھی غلطی سے کوئی قرارداد امریکہ کے ویٹو سے بچ بھی گئی تو اسرائیل نے امریکہ اور مغربی ملکوں کی حمایت کی وجہ سے اسے کبھی بھی قابل توجہ اور قابل عمل نہیں سمجھا۔امریکہ اور مغربی ممالک کی اس بے جا اور بھر پور حمایت اور مسلمانوں کے بکھرے شیرازے اور ان کی مسئلہ فلسطین کے بارے میں خاموشی نے اسرائیل کو اتنا ہٹ دھرم بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف علی الاعلان عالمی اداروں کے فیصلوں کو نہیں مانتی بلکہ ان فیصلوں اور قراردادوں کے خلاف عمل کرتی ہے۔امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت تو ممکن ہے اسلام دشمنی اور علاقے میں اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلط کرنا ہو لیکن جو بات امت مسلم کو خون کے آنسو رلاتی ہے وہ علاقے کے عرب ممالک کے حکمرانوں کا رویہ ہے۔ عرب ممالک کے سربراہ یوں تو اپنے ہر مسئلے کو عربوں کا مسئلہ قرار دیکر اسکے لئے شب و روز کوششیں کرتے ہیں لیکن فلسطین کے مسئلے پر ان کا رویہ ہمیشہ دفاعی یا انتہائی کمزور رہا ہے۔ عالمی اداروں کی خاموشی ، عرب حکمرانوں کا رویہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دوہرے معیار اور عالمی برادری کی عدم توجہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و وحدت اور اسلامی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے میدان عمل میں آئے۔ یوم القدس اس بات کا بہترین موقع ہے کہ ہم امت واحدہ کی صورت میں اپنے تمام تر فروعی اختلافات اور مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے قبل اول کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بن جائیں۔ امام خمینی کے بقول یوم القدس یوم اسلام تھا اور فلسطین اور غزہ کی مظلوم عوام آج ہم سے مدد طلب کر رہی ہے کیا ہم اس قابل نہیں کہ اپنے مظلوم بہن بھائیوں کی مدد کر سکیں ؟ آیا بہ حیثیت ایک مسلمان ہمیں زیب دیتا ہے کہ یہودیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ہم اپنے ہی مظلوم بہن بھائیوں اور معصوم بچوں کو قتل عام ہوتا دیکھیں اور علما کوئی اقدام نہ کریں، کچھ مسلمان ممالک اسرائیل کے ساتھ، جو کہ فلسطین اور غزہ کی مظلوم عوام کی نسلیں تباہ کرنے پر تلا ہے ، باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہین آیا ہم قرآن کی یہودیئوں کے بارے میں واضح آیات کہ وہ مسلمانوں کے بدترین دشمن ہیں کو فراموش کرچکے ہیں؟