عمران خان کا دورہ امریکہ ایک ایسی ابلاغیاتی مچھلی ثابت ہوا جو کئی واقعات کو چھوٹی مچھلی سمجھ کر کھا گیا۔ یہ دورہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ بس اس پامال موضوع پر مزید کچھ کہے بنا ہمیں قبائلی اضلاع جانا ہے۔ چند روز قبل میرے دوست زیب اللہ وزیر نے ایک تصویر بھیجی۔ زیب اللہ سرسبز پہاڑی چوٹی پر کھڑا تھا اور اس کے عقب میں گھاس سے ڈھکی بل کھاتی زمین کے قطعات پر خوبصورت درخت ایستادہ تھے۔ زیب اللہ کچھ برس قبل لاہور میں مجھ سے انٹرنیشنل لاء اورانٹرنیشنل ریلیشنر پڑھا کرتا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ وادی شوال کی ایک پہاڑی پر کھڑا ہے۔ یہ وہی وادی شوال ہے جہاں ہماری سکیورٹی فورسز کے درجنوں اہلکار دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ علاقہ پشاور سے آٹھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ وادی شوال کو دوسرا سوئٹزر لینڈکہا جاتا ہے۔ یہاں پھل دار درختوں کی بہتات ہے۔ خصوصاً چلغوزے کے باغات کے لئے یہ علاقہ مشہور ہے۔ یہاں بدامنی کی وجہ سے چلغوزہ قومی منڈیوں تک نہ پہنچ سکا اور اس کی قیمت 4000روپے فی کلو گرام تک چلی گئی۔ میرا ایک دوست شاہد خان ہے۔ شاہد کے والد قبائلی علاقوں میں بی بی سی کے نمائندہ رہے ہیں۔ وہ تازہ تازہ تعلیم سے فارغ ہوا ہے لیکن قومی سیاست‘ سکیورٹی امور اور طالبان تحریک کے متعلق نہایت مفید معلومات رکھتا ہے۔ چار ہفتے قبل میں خود بعض قبائلی علاقوں میں گیا۔ زیب اللہ‘ شاہدخان اور میرا اپنا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہم قبائلی شہریوں کے متعلق بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ ایک غلط فہمی ریاستی سطح پر یہ رہی کہ قبائلی شہری مروجہ جمہوری نظام کو پسند نہیں کرتے۔ یہ تاثر ان ملک اور خوانین نے قائم کیا جو قبائلی علاقوں پر اپنے سوا کسی کا کنٹرول دیکھنے کے روا دار نہیں۔ ان بااثر افراد کا طرز عمل بلوچستان کے ان سرداروں سے مماثلث رکھتا ہے جو خود تنازعات پیدا کرتے ہیں اور پھر ریاست کو کردار ادا کرنے سے روکتے ہیں تاکہ ریاست ان کی محتاج رہے اور وہ ریاستی وسائل کے مختار رہیں۔ ایسے لوگوں نے قبائلی شہریوں کو باور کرا رکھا تھا کہ اگر ریاست پاکستان کی عملداری ان علاقوں تک وسیع ہوئی تو ان لوگوں کی آزادی ختم ہو جائے گی‘ بے حیائی پھیلے گی اور ان لوگوں پر جبر کیا جائے گا۔ قبائلی اضلاع میں کبھی صوبائی انتخابات نہیں ہوئے۔ خیبر پختونخواہ میں انضمام کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ یہاں سے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا تجربہ ہوا۔16نشستوں کے لئے 297امیدوار میدان میں تھے۔7اضلاع کے کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 28لاکھ ہے۔ ان میں سے 11لاکھ 30ہزار خواتین ہیں۔ ان انتخابات کا نتیجہ آ چکا ہے۔7نشستیں آزاد امیدواروں نے جیتیں‘5پر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی۔ جمعیت علمائے اسلام کو 2نشستیں ملیں ۔جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کو ایک ایک نشست پر کامیابی ملی۔ یاد رہے کہ وزیرستان کے حلقہ 113سے جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار کی کامیابی کا اعلان ہوا مگر پی ٹی ایم کے حامی آزاد امیدوار نے دوبارہ گنتی کی درخواست کی۔ دوبارہ گنتی میں آزاد امیدوار کامیاب قرار دیا گیا۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو کوئی نشست نہ ملی۔ ان انتخابات میں دو خواتین امیدوار میدان میں اتریں عوامی نیشنل پارٹی نے ناہید آفریدی کو خیبر ایجنسی سے ٹکٹ دیا جبکہ جماعت اسلامی نے کرم ایجنسی سے مالسہ بی بی کو امیدوار نامزد کیا۔ ناہید آفریدی نے 194اور مالسہ بی بی نے 17ووٹ لئے۔ یہ بات اہم نہیں کہ دونوں خواتین نے اتنے کم ووٹ کیوں لئے۔ اہم بات یہ ہے کہ قبائلی اضلاع میں سیکولر اور دینی سیاست کی علمبردار جماعتیں خواتین کے سیاسی کردار کی حامی نظر آئی ہیں۔اگلے دو تین انتخابات میں یہ رجحان خواتین کا سیاسی کردار مزید مستحکم کرے گا۔ 25جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر گل ظفر باجوڑ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ گل ظفر خود کو چائے والا کہلاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ اب بھی چائے بیچتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ نے جب ان سے تفصیلی بات کی تو معلوم ہوا محنتی اور ہوشیار آدمی ہیں۔ چائے کا کام کرتے ہیں مگر غریب ہرگز نہیں۔ کروڑ پتی ہیں۔ حالیہ انتخابات میں گل ظفر اپنے علاقے کے ایک پولنگ سٹیشن میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے کہ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے اعتراض کر دیا ۔اس پر کچھ ہلکی پھلکی ’’چائے‘‘ بھی بنی۔ قبائلی اضلاع بہتر برس تک محرومیوں کا شکار رہے۔ ان محرومیوں نے یہاں کے نوجوانوں کو پرتشدد سرگرمیوں کی طرف مائل کیا۔ ان علاقوں میں مسائل ہی مسائل ہیں‘ تعلیم‘ پانی‘ ترقیاتی کام اور روزگار کے مسائل ۔امیدواروں نے انتخابی مہم کے دوران ووٹرز سے جو وعدے کئے وہ زیادہ تر ان ہی معاملات کے گرد گھومتے ہیں۔ ان علاقوں میں کھیلوں، ثقافت اور علمی و ادبی سرگرمیوں کو اہمیت دینے والا کوئی نمائندہ دکھائی نہیں دیا۔ شاید ریاست ان صحت مند سرگرمیوں کو اپنی ذمہ داری کے دائرے سے خارج کر چکی ہے اس لئے کوئی عوامی نمائندہ بھی ایسی چیزوں میں دلچسپی کا اظہار نہیں کرتا حالانکہ کسی بھی معاشرے کو انسان دوست بنانے کے لئے سب سے موثر اور فعال کردار کھیل‘ ثقافت اور ادب ادا کرتے ہیں۔ قبائلی اضلاع میں حالیہ انتخابات کو کسی ایک جماعت کی جیت یا ہار کے تناظر میں دیکھنے کی بجائے ریاستی حکمت عملی کے طور پر دیکھیں تو ایک حوصلہ افزا تاثر ابھرتا ہے۔میری چند قبائلی نوجوانوں سے بات ہوئی ہے‘ وہ بنجر اور جنگلات سے محروم زمینوں پر شجر کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے موزوں درختوں کی بابت پوچھا ہے۔میں نے وعدہ کیا ہے کہ اس شجر کاری کے لئے میں خود ان کے پاس پہنچوں گا۔ قبائلی اضلاع کے لوگ اب سرکاری سکولوں اور ڈسپنسریوں کو راکٹ لانچر سے اڑانے کا کھیل نہیں کھیلتے وہ جان رہے ہیں کہ اسلحہ صرف حفاظت کے لئے ہوتا ہے۔ ریاست اور عوام کے مسائل بڑھانے کے لئے اس کا استعمال اب درست نہیں سمجھا جا رہا۔ انتخابات کے دوران ووٹر خواتین اور مردوں کی لمبی قطاریں بتاتی ہیں کہ قبائلی شہری اب بالواسطہ اختیار کی جائے براہ راست سیاسی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔یہ کردار ان کے مسائل میں کمی اور علاقے کی پسماندگی میں اس حد تک کمی لانے کا موجب ہو گا جس حد تک عوام خود چاہیں گے۔