جرأت بڑھتی جا رہی ہے، ان لوگوں کی جنہوں نے اپنی نیت اور ارادے میں پاکستان کو تباہ کرنے کا ایک مستقل پروگرام بنایا ہوا ہے۔ وہ پاکستان کی ہر حیثیت کو اتنا زیادہ متنازعہ بنانا چاہتے ہیں کہ لوگ پاکستان کے نام کو برداشت نہ کرسکیں۔ وہ اپنی شریرانہ نیت میں پاک وطن کا ایک ایسا تصور بٹھائے ہوتے ہیں جس تصور سے لوگ بیزار ہو جائیں۔ دشمنان وطن دور جدید کے وہ باکمال منافق ہیں جنہیں دیکھ کر منافقت بھی اپنی تعریف بھول جائے۔ ان دشمنان نے داخلی محاذ پر ایسے مہرے تلاش کئے ہیں جو چور بھی ہیں اور سینہ زور بھی۔ پرانی بدوروحیں نئے رنگ میں پاکیزدگی کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کی محب وطن فضا کو غدارانہ میل سے مسموم کر رہی ہیں۔ برصغیر میں ہندوئوں نے اپنے تعصب کی انی پر مظلوم مسلمان طبقوں کو ٹانکا ہوا تھا۔ آزادی کی جدوجہد میں امت کے حقیقی صالح کردار قائدین نے قائداعظمؒ کو ایک دینی قوت کی کمک عطا کی تھی۔ برصغیر کے اکثریتی نمائندہ مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے بنارس کانفرنس کا ایک بڑا اجتماع منعقد ہوا تھا۔ سید محمد کچھوچھوی، پیر جماعت علی شاہ، مولانا عبدالعلیم صدیقی، خواجہ محمد قمرالدین سیالوی، صدرالافاضل نعیم الدین مراد آبادی، پیر عبدالرحمن بھرچونڈی شریف، پیر صاحب مانکی شریف، پیر صاحب زکوڑی شریف اور گولڑہ شریف سے لے کر دارالخیر اجمیر شریف کے سجاد گان نے اعلان کیا تھا کہ جو قیام پاکستان کے حق میںووٹ نہیں دے گا۔ وہ ہمارے دائرہ مریدی سے خارج ہے۔ علماء حق جو 1857ء کی تحریک آزادی کے رہنمائوں کے اصل وارث تھے۔ انہوں نے کانگریس اور اس کے ہمنوائوں کا مقابلہ کیا تھا، کانگریس نے ایک چال چلی اور برصغیر کے ان مدعیان اسلام کو ٹکوں کے بدلے خریدا تھا جن کا نعرہ ہی یہی تھا کہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی بھائی بھائی ہیں۔ اقبال نے ان کے ابلیسی فکر اور ڈھنڈورے کا جواب دیا ؎ قوت تیری توحید کے بازو سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے پاکستان تو توحید و رسالت کے نام پر بنا ہے۔ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ (ﷺ) اس کی بنیاد ہے۔ اس کا دستور اسلامی ہے۔ اس کی پہچان جمہوری ہے اوریہ ایک قائدانہ حیثیت کا اسلامی ملک ہے۔ اسلامی ممالک اس کی عسکری قوت کو اپنی قوت قرار دیتے ہیں۔ یہ واحد اسلامی ملک ہے جس کے آئین میں جھوٹی نبوت کے قاتلین کو مرتد و کافر قرار دیا گیا۔ آئین میں اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہ درست ترین حقائق ہیں۔ ان حقائق کو جھٹلانے والا کوئی ایسا ہی بے وقوف ہوگا، جسے چاند کے منہ پر تھوکنے کی عادت ہے۔ یہ بدعادت لوگ اپنے خمیر تخلیق ہی میں بددیانتی کے عنصر کو لیے ہوتے پیدا ہوئے ہیں۔ کل میڈیا پر گفتگو کرتے ہوئے ایک روایتی مفاداتی اور لالچی سیاستدانوں نے بڑے دھڑلے سے یہ کہا کہ یہ پاکستان نہ اسلامی ہے، نہ جمہوری ہے اور نہ ہی کامیاب ریاست ہے۔ بغض سے بھرے دشمنِ پاکستان اس شخص نے یہ بھی کہا کہ 14 اگست یوم آزادی نہیں، جدوجہد کا سلسلہ ہے۔ یہ لوگ اور ان کے بڑے حسب موقع پاکستان کو کوسنے سے کبھی بھی باز نہیں آئے۔ پاکستان کی زمین سے رزق کھانے والے، پاکستانی اداروں سے دنیاوی فوائد اٹھانے والے، کشمیریوں کے خون پر اپنی دنیا پرستی کا تخت بچھانے والے طوطا چشم یہ بھول گئے کہ اگر یہ اپنے بڑوں کی تمنائوں کے مرکز بھارت میں ہوتے تو ان بے چاروں کو کشکول ہی سے فرصت نہ ملتی۔ یہ روزانہ ہر نریندر مودی کو اپنا آقائے نعمت کے خوشامدانہ لقب سے یاد کرتے اور واقعتاً منافقین کا رویہ یہی رہا ہے کہ بدترین مشرک اور مکرو دجل کی گٹھڑی کرم چند گاندھی کو یہ لوگ مسجد کے منبر پر لے جا کر بٹھاتے تھے اور گاندھی کی جے بولتے تھے۔ قائداعظمؒ کو کافراعظم اور گاندھی منحوس کو گاندھی جی کہہ کر دونوں ہاتھ باندھ کر پرنام کیا کرتے تھے۔ وہ لوگ جنہیں نہ دین سے کوئی سروکار ہے، نہ ہی انہیں ملت اسلامیہ کے نام پر کسی غیرت کا کوئی خیال ہے۔ وہ مسلمانوں کو تو مشرک، کافر اور سیکولر بنانے پر اپنے نام نہاد تقوے کی آڑ میں اپنی پوری قوت صرف کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ان کی ملک کو گالی دینے کے لیے بھاڑے پر رکھ لے تو ان کا عقیدہ ان کا نظریہ اور ان کا بیانیہ بالکل ہی مختلف ہو جاتا ہے۔ یہ بے چارے بے دین اور شکم پرست دین کے نام پر اسمبلی میں جاتے ہیں اوراپنی عمر کا ایک حصہ عوام کو نجانے کتنے دلفریب نعروں کا شکار کرنے کے لیے صرف کرتے ہیں اور جب کوئی بدباطن حکومت دین اور دینی شعائر پر وار کرے تو یہ کرائے کے سیاستدان اور ضمیر سے عاری مدعیان دین اپنی آنکھیں، کان اورسانس بند کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں نقد رقم، آسائشیں اور اقتدار کی کرسیاں ملتی ہیں۔ بالکل درست ہے، جس قوم کا ملا اور دینی سیاست کا علمبردار رکن اسمبلی ختم نبوت کے قانون کا خون ہوتے ہوئے مجرمانہ اور مکارانہ خاموشی اختیار کرے۔ اس ملائے بے بدل کے۔ نزدیک تو یہ ملک بالکل ہی غیر اسلامی ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ہر سیکولر، بے دین، بے نظریہ حکومت کا حلف ہر دور میں ایک داعی دین ہو اور ہر طرز کی چھانگا مانگا سے لے کر مشرف حکومت تک میں جمہوریت میں اسے جمہوریت ہی جمہوریت نظر آئے تو اس نادان، کوتاہ نیت کے نزدیک تو جمہوریت کی تعریف ہی مختلف ہے کہ جب وہ خیرات کی کرسی پر بیٹھے، چاہے وہ کشمیر کمیٹی کی ہو یا امور خارجہ کی، تب تو پاکستانی جمہوری ہے اور جب حالات سے تنگ عوام اس مفاد پرست سیاستدان کی حقیقت سیاست سے آشنا ہو کر اسے انتخابی میدان میں شکست دے دیں تو پھر یہ ملک جمہوری نہیں ہے۔ کسی سیاستدان کا بھائی گورنر بن جائے، کسی کا بھائی وزیر بن جائے اور دنیا بھر کی آسائشیں پاکستان کے غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بھرتے ہوئے خزانے سے تعصب ہوں تو تب پاکستان بالکل کامیاب ریاست ہے۔ یہ لوگ عقل کے اندھے اوران کی منزلیں رات کے اندھیرے ؎ ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے لیکن اس سے بڑا تاریخ کا شرمناک کونسا ہو گا جب مولانا شاہ احمد نورانی جس کے آباء اور اکابر تحریک پاکستان کے ہراول دستے تھے۔ اس کا بیٹا پاکستان کے اس روایتی دشمن کے ساتھ کھڑا یہ سب ہرزہ سرائی میں رہا تھا اور خاموشی سے فدویانہ تائید کر رہا تھا۔ یہ مسلمانوں کے غالب اکثریتی طبقے کی بدقسمتی ہے کہ مولانا شاہ احمد نورانی کا بیٹا کانگریس نواز اور سیکولر طبقے کے حمایتی ایک غیر محتاط اور وفا پرست شخص کے ساتھ کھڑا اپنا شمار بھی اسی طبقے کے ساتھ کروا رہا تھا۔ اس بے چارے صاحبزادے کو اعلان کرنا چاہیے تھا کہ میرے باپ اور میرے دادا اور ان کے اکابر نے پاکستان بنانے کی غلطی کی تھی اور اب میں تو یہ کر رہا ہوں، اس شخص کے ہاتھ پر جس کے باپ نے کہا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ ہم اب کفارہ ادا کرنے کے لیے نریندر مودی کے خاموش دوست نااہل سابق وزیراعظم کے قافلے کے ساتھ ہیں، نااہل وزیراعظم نے کہا تھا کہ اگر میرے خلاف کارروائی جاری رہی تو ملک کو نقصان ہوگا۔ عوامی عدالت نے اب دھمکی بازوں کے خلاف ووٹ دے کر کارروائی کردے ہے، اس لیے اب وہ اپنے قول کو سچا ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے پرانے مخالفین اور ان کے نئے حواریوں کو میدان جنگ میں اتار رہے ہیں۔ مولانا نورانیؒ کے احباب، مریدین اورشاگردوں کو ان کے مزار پر جا کر اظہار افسوس کرنا چاہیے کہ ان کے بیٹے نے ان کے نظریے کو قتل کردیا۔