ٹھیک کہتے ہو تم بھی مری جاں مگر اشک تھمتے نہیں ٹوٹ جاتے ہیں جب دل کے دیوار و در اشک تھمتے نہیں وقت لوگوں میں میں نے گزارا بہت ہے مگر کیا کہوں اپنے اندر کی جب سے ملی ہے خبر اشک تھمتے نہیں کیا کیا جائے دل کی کیفیت حواس پر چھا جاتی ہے نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا ہی ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ عید کی آمد آمد ہے اور خوشیوں کی ساعتیں آ رہی ہیں مگر وہی کہ جو غالب نے کہا تھا دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں۔ روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں۔میں کوشش کے باوجود بھی اس خیال کو جھٹک نہیں پاتا کہ میرے فلسطینی بھائیوں پر اسرائیلیوں نے قیامت ڈھا دی۔ قبلہ اول پر اسرائیلی حملے میں 9 فلسطینی شہید ہوئے اور تین صد سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ آپ یقین کیجیے کہ دل بجھ سا گیا ہے۔اس قدر بے بسی اور لاچاری۔صرف ایک ترکی رہ گیا ہے جو آواز بلند کرتا ہے سعودیہ پتہ نہیں کن معاملات میں ہے۔’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘رفتہ رفتہ مسلم امہ میں وہ دم خم ختم ہو چکا کہ کبھی ہم فلسطینیوں کیلئے اعانت بھی کرتے تھے۔کمال یہ کہ ہم اپنے دشمنوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس ظلم و بربریت کا نوٹس لیں۔ اصل میں ہم اسلام کا سافٹ امیج پیش کرتے کرتے اس حالت کو پہنچ گئے کہ ہم میں جان ہی باقی نہیں رہی کچھ ہماری اپنی خواہشات اور آرزوئیں ہی اس طرح کی ہیں کہ ہم آسودگی بھی اپنے جانی دشمنوں کی طرز زندگی میں ڈھونڈتے ہیں۔ جب ہمارے معیارات ہی یہی ہیں تو کوئی کیا کہے۔ مجھے تو اس شعر کے معانی ہی کچھ اور لگنے لگے: لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے کل دلیر خاتون فاطمہ قمر نے جہاد کے حوالے سے پوسٹ لگائی کہ یہودی درندوں کے ظلم کا جواب صرف جہاد میں ہے۔ ایسے ہی نہیں کسی نے کہا تھا’’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘‘ بڑی کوششوں اور کاوشوں سے ہمارے اس امتیاز اور پہچان کو ختم کیا گیا۔ ایک شرمندگی ہے جو دامن گیر ہے کہ اقبال کا شاہیں جسے بننا تھا وہ ٹک ٹاک پر عجیب و غریب نسل میں ڈھل گیا۔ وہ مردانگی‘ وجاہت اور وقار کہیں نظر نہیں آتا۔ فکر و تدبر تو پتہ نہیں کس پرندے کا نام ہے واقعتاً زوال آمادہ لوگ ہماری طرح ہی کے ہوتے ہیں۔ باتیں کچھ زیادہ ہی تلخ ہیں۔ آپ اپنا سیاسی منظر نامہ ہی دیکھ لیں اور اس سے پہلے اپنے اردگرد پھیلے معاشرے ہی کو فوکس کر لیں۔ہمارے بیورو کریٹ ‘تاجر‘ استاد اور دوسرے لوگ کہاں کھڑے ہیں۔اپنے اپنے شعبے کے ساتھ ان کا رویہ کیا ہے ایک دوسرے پر سوائے کیچڑ اچھالنے کے کیا ہو رہا ہے اور کیچڑ بہت زیادہ دستیاب ہے۔ہر چیز قابل فروخت‘حتیٰ کہ انصاف بھی۔ ہمارے نمائندہ تک اپنے نہیں۔ ہم پر نافذ کئے جاتے ہیں ہمیں بھیک دینے والے اپنے گماشتے ہماری گوشمالی کے لئے لگاتے ہیں۔اپنا سب کچھ ہم گروی رکھ چکے ہمارے ایس او پیز بھی وہ طے کرتے ہیں: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشہ بنا دیا ایک لمحے کے لئے ہمارے رہنمائوں کا حال آپ دیکھیں۔ میں بلاول کا بیان دیکھ رہا تھا کہ وہ کہتے ہیں خیرات سے ملک نہیں چلتے اور میڈیا نے بھی یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہاں سے فطرانہ اور زکوٰۃ کے سوا کچھ بھی ہاتھ میں نہیں آیا۔اللہ جانے اندر کی کہانی کچھ اور ہی ہو گی مگر ہمارے رویے بس اسی طرح کے ہیں۔ تاہم بلاول کی بات سے مجھے زرداری صاحب کا دور ضرور یاد آیا جب سیلاب کی مد میں اسی سعودیہ نے نقد رقم دینے سے انکار کر دیا تھا اور کھجوریں یا کمبل وغیرہ عطا ہوئے تھے اور پھر کس کو یاد نہیں کہ وہ کھجوریں اور کمبل مارکیٹوں میں بکے تھے اور تو اور یوسف رضا گیلانی والا واقعہ تو تاریخ کا حصہ ہے اور شاید گینز بک آف ریکارڈ میں بھی آ جاتا کہ خیرات میں دیا ہوا نیکلس جو ترک خاتون اول نے دیا تھا موصوف کی بیگم کے گلے تک پہنچ گیا۔کیا مذاق ہے کہ ایک وزیر صاحب سعودیہ کے کرتا دھرتا سے اپنے علاقے کے لئے فنڈ مانگ رہے تھے۔ ہائے ہائے میر نے کیا شعر کہا تھا: آگے کسی کے کیا کریں دست طمع دراز وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے ان کا ہاتھ تو نہیں سویا کہ خود سو گئے ہیں۔ضمیر کا تو تذکرہ ہی کیا اے کاش مار دیتی مجھے میری مفلسی یہ مفلسی بھی یقینا اچھی نہیں مگر اپنی خودداری کا جنازہ زیادہ بڑا نقصان ہے ۔بس چھوڑ دیں اس بات کو دل دکھتا ہے! میں ایک مرتبہ پھر ہارون الرشید صاحب کی بات دہرائوں گا کہ انتقام سے صحیح فیصلے نہیں ہو سکتے۔اس وقت وہی فضا نظر آ رہی ہے کہ حکومت کی توانائیاں شہباز شریف کو روکنے میں اور اپوزیشن کی پکڑ دھکڑ میں ضائع ہو رہی ہیں۔اس وقت وہ عوام کی طرف توجہ دیں اور انہیں کس طرح مہنگائی کے منہ سے نکالیں۔ابھی پتہ چلا کہ حکومت گندم کی 80 فیصد خریداری کر چکی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ ہمای گندم باہر نہ جانے پائے پچھلی حکومت میں بھی یہی کھلواڑ ہوا تھا کہ اپنی گندم باہر بھیجی گئی اور پھر کمی آنے پر ناقص گندم منگوائی گئی اب بھی وہی کچھ ہوا۔ہمارا زرعی ملک ہے اور ماشاء اللہ ہماری زمینیں بہت غلہ پیدا کرتی ہیں زرعی نظام کو بہتر بنایا جائے۔ حکومت پر بے جا تنقید بھی درست نہیں لگتی۔اگر سعودیہ نے فطرانہ یا زکوٰۃ بھیجی ہے تو وہ پاکستان کے مستحقین کو پہنچنے دیں۔ مجھے تو یہی ڈر ہے کہ وہ بھی خورد برد نہ ہو جائے۔ ہم تو زکوٰۃ فنڈ اور حج کے معاملات میں بھی نہیں چوکتے۔ ہم نے فلسطینیوں کی حمایت کیا کرنی ہے ہم تو آپس کی لڑائیوں میں نڈھال ہو رہے ہیں۔ میرے پیارے قارئین !آپ بھی میری طرح دکھی ہونگے اللہ کوئی صورت نکالے تو نکالے۔آپ دعا ضرور کریں اقبال کی خواہش شاید پوری ہو جائے۔اے کاش: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر