مانا کہ سچ کا قتل ہؤاہے۔مگرکیا یہ اصل سانحہ ہے؟ سچ کے قتل کی تاریخ تو اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود انسانیت کی کہانی،جس کے ہر موڑ پہ ایک سقراط زہر کا پیالہ لبوں سے لگائے کھڑا ہے۔آج ہؤا تو کیا نیا ہؤا؟اور کیا سچ کہنے والے کے قتل سے آج تک سچ قتل ہوسکا؟ مانا کہ یہ آزادیِ اظہار کی موت ہے۔مگرلامتناہی زمانوں میں کون سا دورتھا جب طاقت اور اختیارکے آگے سوال کرنا انسان کا حق مانا جاتا تھا۔وہ کام جس کا سب سے اوپر والا رتبہ پیغمبروں کی جدوجہد سے عبارت ہے اور جس کو پیغمبر اسلام نے یہ کہہ کر عروج پہ پہنچا دیا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے آگے کلمہ حق کہنا ہے۔اگر آج کلمہِ حق کہہ کر کوئی جان سے گیا توکیاانوکھا گیا؟ تو کیا یہ یقین کی موت ہے؟ گزشتہ چار برسوں میں یہ یقین ہونے لگا تھا کہ سب اچھا ہونے جارہا ہے کیونکہ جن کے ہاتھ میں اصل اختیارات ہیں وہ اختیارات سے دست بردار ہونے کو تو تیار نہیں مگرکم از کم اپنی قوت حالات کو ٹھیک کرنے میں لگا رہے ہیں۔اب تک ملک کے ساتھ جو کچھ غلط ہوتا رہا اسے درست ہونے کا راستہ دے رہے ہیں، میدان صاف کررہے ہیں تاکہ زیرو سے سفر شروع ہو۔مانا سٹیئرنگ وہیل پہ کوئی بھی ہو، انجن انہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے مگر اب کے وہ گاڑی کو غلط موڑ نہیں مڑنے دیں گے۔توانہوں نے ایسا بندوبست کیا ہے کہ ڈاکو ٹولے کوانہی کے ایک دوسرے پر بنائے ہوئے مقدمات کے نتائج بھگتنے پڑیں، ان کے جرائم کی عدالت لگے اور انہیں کوئی بچانے والا نہ ہو۔جمہوریت کو پنپنے کے لیے ایک ‘‘سیف سپیس’’ دی جائے تاکہ ووٹ کے ذریعے عوامی احتساب کا راستہ بنے۔پینتیس سال سے مسلط کرپٹ ٹولے اور خاندانوں کو ایک طرف کیا جائے تاکہ عوامی مقبولیت کے حامل ایک نوواردِ سیاست کومیدان میں جگہ بنانے کا موقع ملے،اس شرط پر کہ بدلے میں وہ دامن پر لگے ڈیڑھ عشرے کے بدنامی کے داغ دھو سکے اور ادارہ ایک بار پھر عوام کے دلوں کی دھڑکن بن جائے۔ یہ ایک ’وِن وِن‘ صورتحال تھی۔اس سے حوصلہ پاکرترازو کے پلڑے ٹھیک کام کرنے لگے، لفافہ صحافت کے مقابل نڈر صحافی ابھرآئے،ایک عام پاکستانی کی زمین پہ گری پڑی عزت نفس نے ایک آنکھ کھول کر حالات کا جائزہ لینا شروع کیا،اسے لگا کہ پاکستانی ہوکر بھی خواب دیکھے جا سکتے ہیں، ملک کو سنوارا جاسکتا ہے، یقین ہونے لگا کہ پارلیمان سے اٹھتی ہوئی تبدیلی کی آواز واقعی حالات بدل سکتی ہے اس لیے کہ اب اس بندوبست کوبندوق کی آشیرباد حاصل ہے۔ مگر ہؤا یہ کہ نووارد نے اپنا بیانیہ خیروشر کی بنیاد پر ترتیب دیدیا۔ جنرل مشرف کے ملامت زدہ دورمیں جو دینی تصورات کی تعبیرِ نو بڑی محنت سے قوم کو سکھائی گئی شاید اسی کا انوکھا شاخسانہ تھا کہ پاکستانی قوم نے معرکہِ خیروشرکے لیے شمشیروسناں کی بجائے میدانِ سیاست کو چن لیا۔ رجیم چینج ہوئی تومحاذ پرباطل سے لڑنے ،شہادتیں پانے والی فوج کے مقابل میدانِ سیاست میں بنا ہؤاحق و باطل کے بیانیے کااثر پوری طرح ابھرکر سامنے آگیا اور سماجی قوت کے طور پہ روبہ عمل ہوگیا۔جہادِ اکبر کا یقین جہاد اصغر کی اہمیت پر غالب آگیا۔ اب بندوق کی آشیر باد ہٹ جانے کا مطلب جیل کا دروازہ کھل جانا تھا، ترازو کے پلڑے ناہموارہونا تھا،اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ لفافوں کے سر پہ دستِ شفقت اور باضمیر صحافت کے لیے خوف۔اس کا مطلب تھا بیرونی ایجنڈوں کی فتح اور عام پاکستانی کی شکست۔اس کا مطلب تھا ملکی وسائل کی وہی لوٹ مار اور کھایا پیا ہضم، ریکارڈ جلا کر سب ختم، اس کا مطلب تھاایان علی اورمقصود چپراسی،ایون فیلڈ اور پانامہ،دو خاندان اور ان کی نسلیں،امریکی آشیر بادکی طلب اور بھارت کی بالادستی۔پشت پر زخم کھا کر جب نووارد نے تڑپ کرکہا کہ نیوٹرل تو صرف جانور ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہی تھا۔ اگرچہ پونے چار سال کی مدت میں نہ آئی ایم ایف سے نجات ملی، نہ فیٹف کے مطالبوں پہ کسی ماتھے پہ شکن آئی، سیاسی خانوادوں کے مافیا حکومت کا حصہ رہے،بیرونی دباؤ پرکئی بل بغیر بحث کے جلد بازیوں میں پاس ہوئے، نہ دین دیکھا نہ آئین، مذہبی ٹچ تقریروں تک رہا،عام شخص نے بس مہنگائی دیکھی اور اچھے دنوں کی آس، مگر کم از کم ایک یقین ضرورتھا کہ اب لٹیرے واپس نہیں آئیں گے۔عمران خان نہ سہی کوئی اور سہی، ایک بار پینتیس سال کی گندگی تو ماضی کا حصہ بن جائے، سیاست میں فیئر پلے کا رواج ہو، میزان قائم ہو،ضمیر کی آواز اور قلم کی سیاہی آزاد ہو،بندوق اپنی حد میں رہے ،جغرافیائی کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کی بھی حفاظت کرتی رہے تو رفتہ رفتہ بہتری آنے لگے گی۔مگر اپریل کے بعد سے جو کچھ ہوا اس نے اس یقین کو لرزا کر رکھ دیا۔ بچپن میں قیدی قیدی کھیلتے تھے تو جب سارے چور پکڑ لیتے کامیابی دو قدم ہوتی تو پیچھے سے چوروں کا ایک ساتھی آنکھ بچا کرآتا اور انہیں چھڑاکر لے جاتا،ساری محنت اکارت جاتی اور چور پھر میدان میں دندنانے لگتے۔ آج اکثر پاکستانی اسی کیفیت میں ہیں۔ تو کیا واقعی یقین کی موت پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی ہے؟چھ ماہ سے جاری کھیل کو پنچ لائن دے کر کلائمکس دے دیا گیاہے؟جن تلخ حقائق کو اب تک اندیشے کہہ کرسب ان سے آنکھیں چراتے تھے اب وہ اپنی پوری بدصورتی کے ساتھ برہنہ ہو کر سامنے آگئے ہیں؟یا اس کے بالکل برعکس،اس سانحے نے یقین کو ایک ایسی کمیت فاصل) ( critical massمہیا کردی ہے کہ اب وہ بیرونی عوامل سے بے نیاز ہو کر اپنا مالک آپ بن گیا ہے جو آنے والے وقتوں میں کسی ترازو،قلم یا بندوق کے اشاروں کا منتظر نہیں ہوگا،بلکہ سب فیصلے اس کی اٹھان دیکھ کر کرنے پڑیں گے؟ ایک کہانی ہوتی تھی جس میں بے بس پرندے بے بسی کی انتہا پر ایک فیصلہ کرتے ہیں اور جال کو اڑا لے جاتے ہیں۔ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ پرندے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔