ملکی تاریخ میں ہرالیکشن کے بعد دھاندلی کا شور مچامگر 2013ء کے انتخابات کے بعد دھاندلی کے سنگین الزامات اور دھرنے نے تمام سٹیک ہولڈرز کو فرسودہ انتخابی قوانین اور طریقہ ہائے کار بدلنے پر مجبور کردیا۔124دنوں کے دھرنے کے نتیجے میںتین رکنی انکوائری کمیشن قائم ہوا۔وفاقی حکومت کی جانب سے پہلی مرتبہ سنجیدہ انتخابی اصلاحات کا عمل شروع کرنے کیلئے کمیٹی نے کام شروع کیا۔ انکوائری کمیشن نے 2015ء میں اپنی رپورٹ جاری کردی ۔کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے دعوؤںکے برعکس 2013ء کے الیکشن میں کئی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے متعدد سفارشات پیش کیں۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے 2018ء میں بالآخر اقتدار کی مسند پر فائز ہونے کا خواب پورا کیا، تو وزیراعظم عمران خان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین و انتخابی اصلاحات کے ذریعے دھاندلی کا توڑنکالنے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کوووٹ کا حق دینے کا اعلان کردیا۔اس مقصدکے حصو ل میں قانونی‘تکنیکی اور مالی چیلنجز کا سامنا تھا مگروزیراعظم نے ہر چیلنج سے نمٹ کرعوامی مینڈنٹ چُرانے کی راہ میں بند باندھنے کی ٹھان لی۔ وفاقی حکومت نے انکوائری کمیشن کی دیگر سفارشات کے مقابلے میں الیکٹرانک ووٹنگ اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے نفاذ کیلئے کمرکس لی۔ ماہر کنسلٹنٹ کی خدمات اور 200ارب روپے سے زائد مالیت کی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری اور مشینوں کے استعمال میں حائل قانونی رکاوٹیں دور کرنے کیلئے دن رات ایک کردیا گیا۔ وزیراعظم اور وزراء کو کابینہ کے ہر اجلاس میں وزیر سائنس وٹیکنالوجی شبلی فراز اور اور وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے بریفنگ دی جاتی رہی۔اپوزیشن جماعتوں سے اتفاق رائے نہ ہواتوکابینہ ارکان کے سامنے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوںاور انٹرنیٹ ووٹنگ کے نفاذ کیلئے ایک’ مجرب نسخہ‘ پیش کیا گیا۔ اس نسخے کے ذریعے مرضِ دھاندلی کے آسان اور مؤثر علاج کی یقین دہانی کروائی گئی۔اس نسخے کے مطابق قائمہ کمیٹی کی رپورٹ رواں ماہ کے دوران سینیٹ میں پیش کی جائے گی۔سینیٹ نے ترمیم کے ساتھ منظوری دی تو 15اکتوبر کو معاملہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔سینیٹ نے انتخابی اصلاحات بل مسترد کیا تو 30اکتوبر کو مشترکہ اجلاس میں معاملہ بھیجنے کی قرارداد منظور کی جائے گی۔30نومبر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر انتخابی اصلاحات قانون منظور کروایا جائے گا۔آئی ووٹنگ میں ایک سال تاخیر کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا۔اسی خدشے کے پیش نظر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پوسٹل بیلٹ کی اجازت لی جائے گی تاہم اسپیکر کی تشکیل کردہ پارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنا سب سے بڑا چیلنج قراردیا گیا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے قائم انکوائری کمیشن کی تحقیقات میں اس وقت کے الیکشن کمیشن کی انتظامی کمزوریوں اور نااہلیت کی نشاندہی کی گئی تھی۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے31اگست کو ایک اعلیٰ سطح اجلا س کوسپریم کورٹ کے الیکٹرانک ووٹنگ مشین‘انٹرنیٹ ووٹنگ کے حوالے سے فیصلے اور 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے قائم کیے گئے انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے آگاہ کیا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نادرا کو الیکشن قوانین کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے حوالے سے پائلٹ پراجیکٹ مکمل کرنے اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے عمل کو فول پروف بنانے کی ہدایت کی تھی ۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کوووٹنگ کو خفیہ‘ محفوظ اور تکنیکی افادیت کو یقینی بنانے کیلئے ضمنی انتخابات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے انٹرنیٹ ووٹنگ کے پائلٹ پراجیکٹ شروع کرنے کی ہدایت کی تھی جس پر عمل نہیں ہوسکا۔ دو رو ز قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کرانے پر37 اعتراضات اٹھائے جسے ایک وزیر نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے خلاف قتل کی ایف آئی آرکے مترادف قرار دیا ہے۔الیکشن کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ مشین میں چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی ہے اور اس کا سافٹ وئیر آسانی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔یہ یقینی بنانا قریباً ناممکن ہے کہ ہر مشین بالکل درست کام کرسکے۔ ایک ہی وقت میں ملک بھر میں ای وی ایم متعارف کرانا مناسب نہیں ہے۔ قانون کے تحت ایک دن میں پولنگ قریباً ناممکن ہوگی۔ بیلٹ کی رازداری‘ ہر سطح پر صلاحیت کا فقدان اور سکیورٹی کو یقینی بنانے اور مشینوں کو بریک کے دوران اور ٹرانسپورٹیشن کے دوران سنبھالنے کا فقدان شامل ہے۔ان تمام خدشات اور رکاوٹوں کو دور کئے بغیر حکومتی ٹیم حصول مقصد کیلئے سرپٹ دوڑے جارہی ہے۔ اربوں روپے خرچ اورقیمتی وقت صرف ہوچکا۔ کچھ وزراء نے اصرار کیاہے کہ الیکشن کمیشن کو جلد یا بدیر راضی کرلیا جائے گا تاہم الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری جلد ازجلد ممکن بنالی جائے۔ وزیراعظم کو جرمنی‘ ہالینڈ‘ آئرلینڈ‘ اٹلی اور فن لینڈ کی جانب سے سیکورٹی مسائل کے باعث الیکٹرانک ووٹنگ مشین ترک کرنے کا جائزہ ضرور لینا چاہئے۔یہ کام پائلٹ پراجیکٹ کی شکل میں مرحلہ وار انجام دینے میں ہی عافیت ہے ۔ انتہائی عجلت میں غریب عوام کے اربوں روپے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری میں جھونکنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ قومی مفاد کے نام پر عجلت میں ایسے اقدامات کرنے والوں کو نوٹس آنے میں کبھی دیر نہیں لگی۔