تحریک آزادیٔ نسواں کے دلفریب پردے میں اخلاقی انحطاط اور خاندانی معاشرے کے زوال کی داستان کم از کم تین صدیوں سے بھی پرانی ہے۔ یہ تحریک یورپ میں اتحاد کی آوازوں تک محدود تھی۔ شروع شروع میں تو اسے غلاموں کی آزادی کی تحریکوں سے نتھی کیا گیا جو انیسویں صدی میں مقبول ہوئیں لیکن یورپ میں جیسے ہی جمہوریت نے اپنے قدم جمائے اور استحصال سے جنم لینے والے کارپوریٹ سرمایہ داری نظام نے اس کی پشت پناہی شروع کی تو جیسے اس تحریک کو پر لگ گئے۔ یوں تو اس کے بڑے خوبصورت مقاصد بیان کئے جاتے ہیں جن میں عورت کو مرد کے شانہ بشانہ ہر میدان زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرکے کامیابی کی منازل طے کرنا ہے۔ گھڑ سواری ہویا تیراکی ،فوج ہو یا پولیس، ہوابازی ہو یا ریسلنگ، ہر شعبے میں مردوں کی اجارہ داری کو ختم کرنا مقصود تھا لیکن تین سو سال کی اس جدوجہد میں عورت کی بنیادی ذمہ داری یعنی اولاد کی نشوونما اور تربیت کے ساتھ ساتھ گھرداری جیسے فریضے میں کسی مرد کو اس کے شانہ بشانہ چلنے کی ترغیب تک نہیں دی گئی اور نہ ہی ایسے مرد کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا گیا جو پیدا ہوتے ہی بچے کو اپنی آغوش میں لے کر مسلسل اس کی پرورش و نگہداشت کرے اور ساتھ ساتھ گھر کے باورچی خانے سے لے کر تزئین و آرائش سب اپنے ذمہ لے لے اور اس میں کمال حاصل کرے۔ اس لیے کہ جن لوگوں نے عورت کو بیرونی دنیا کی یہ اضافی ذمہ داریاں ایک دلفریب جال میں پھنسا کر سونپی تھیں، انہیں بخوبی علم تھا کہ اللہ نے بچوں کی نگہداشت، پرورش و تربیت اور گھریلو نظام کی حسن ترتیب تو عورت کی جبلت میں رکھی ہوئی ہے۔ وہ ہزار کوششیں کرلیں نہ مرد کو بچے پالنے پر مجبور کرسکتے ہیں اور نہ ہی عورت کو بچوں کی نگہداشت و تربیت کے فطری جذبے سے دور لے جا سکتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنا مقصد دونوں کو گھر سے باہر نکال کر معاشی میدان کا گھڑ سوار بنانے تک محدود رکھا۔ یوں ان کا اس تحریک کے پیچھے چھپا ہوا اصل مقصد خود بخود پورا ہوگیا اور وہ تھا خاندانی نظام کاانہدام اور انفرادیت کے مہلک ترین جذبے کا فروغ۔ گھر میاں بیوی سے خالی ہوئے تو وہ آیائوں، ڈے کیئر سنٹروں، اولڈ ایج کے مراکز، فاسٹ فوڈ ریستورانوں، لانڈری سروسز، جیسی کاروباری سلطنتوں میں بانٹ دیئے گئے۔ مرد کو تو اپنا کیریئر پیارا تھا کہ اس سے خاندان کا معاشی مستقبل وابستہ تھا، لیکن اب عورت کو بھی مرد کی جولاں گاہ کا فاتح قرار دے کر اپنے کیریئر کا حریص بنا دیا لیکن تین صدیاں خواتین کی آزادی کی رفتار بہت سست رہی۔ خاندانی نظام بہت حد تک مربوط رہا، عورت کو ووٹ دینے کا اختیار مل گیا، چند شعبے یعنی صحت، تعلیم وغیرہ میں اس کا لوہا مسلم ہوگیا۔ لیکن اس کے پائوں کی زنجیر وہ گھر اور اولاد تھی جس کی طرف اس کی جبلت اسے کھینچ کھینچ کر واپس لے جاتی۔ اسے بچوں کی کشش اپنے کیریئر کو قربان کرنے پر محدود کرنے پر مجبور کردیتی تھی۔ لیکن آج سے ٹھیک تریسٹھ سال پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس جبلی نظام کو دھوکہ دینے کا ایک سائنسی طریقہ ایجاد کیا گیا۔ سائنس دان اس نظام پیدائش اور عورت کی جبلی طور پر ماں بننے کے بعد بچے کی تربیت و پرورش کی بے پناہ خواہش کو نہیں بدل سکتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے ایک ایسے ’’اینزائم‘‘ (Enzym) کی نقل تیار کرلی کہ اگر اسے عورت کے جسم میں داخل کیا جائے تو اس کے تخلیقی نظام کو ایسا لگے کہ وہ تخلیقی مراحل میں داخل ہو گئی ہے اور جس طرح حمل ٹھہرنے کے بعد عورت کا تخلیقی نظام (Reproductive System) اپنے دروازے بند کرلیتا ہے ویسا ہی اس فراڈ، دھوکے اور جعلی تخلیقی مراحل سے کام لیا گیا جس کا اصل مقصد یہ تھا کہ عورت جب تک چاہے اپنے آپ کوتخلیق کی نعمت سے محروم رکھ سکتی ہے۔ 1956ء میں سائنس نے یہ فتح حاصل کی اور 1961ء میں اس ہتھیار کو دنیا بھر کے خاندانی نظام پر داغ دیا گیا ’’یعنی مانع حمل گولی‘‘۔ یہ وہ بنیادی تبدیلی تھی جس نے انسانی تہذیب، اخلاق، معاشرت، خاندان اور مستقبل کی نسل نو کے تمام معیارات بدل کررکھ دیئے۔ اس سے پہلے بچوں کی پیدائش پر کنٹرول یا ان میں وقفے کا اختیار مرد کے پاس تھا۔ اس مانع حمل گولی نے مرد سے اس فیصلے کا اختیار چھین کر صرف اور صرف عورت کے ہاتھ میں تھما دیا۔ لیکن اب وہ خاندانی نظام ہو یا اس سے باہر تعلقات وہ اس اختیار کا بلاشرکت غیرے استعمال کرسکتی تھی۔ یوں عورت اور مرد کے درمیان بچوں کی پیدائش کی وجہ سے جو تفریق تھی، اس کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگیا۔ اب وہ کارپوریٹ استحصال نظام کے ہر شعبہ میں مردوں کے شانہ بشانہ شامل ہوسکتی تھی۔ وہ اپنے کیریئر کی بلندیوں کو چھوڑنے کے لیے تمام عمر اولاد کی نعمت سے اپنے آپ کو دور رکھ سکتی تھی۔ اس کے ہاں شجرہ نسب کے آگے چلنے یا جائیداد کی موروثی نگہداشت کا تردد بھی نہ تھا۔ تین صدیوں سے آہستہ آہستہ چلنے والا حقوق نسواں کے پردے میں خاندانی زوال کا سفر اب اس تیزی سے شروع ہوا کہ آج صرف 55 سال بعد ترقی یافتہ معاشرے انسان کی آئندہ آنے والی نسلوں کے قہقہوں سے ترسنے لگے۔ بوڑھوں کو دفن کرنے کے لیے ملازمین دوسرے ملکوں سے برآمد ہونا شروع ہو گئے۔ شادی کی رجسٹریشن بوجھ بن گئی اور عورتیں بلاخوف ذلت و رسوائی ساری ساری عمر شادی کے بندھن سے آزاد اور اولاد کی نعمت سے دور رہ کر سیاست، فیشن، فوج، پولیس اور دیگر شعبوں میں سرخرو ہونے لگیں لیکن 55 سال بعد مڑ کر دیکھا تو آج ان شعبوں کے لیے نہ مرد میسر تھے اور نہ عورتیں۔ پورا یورپ جس قحط انسانی پر آج ماتم کررہا ہے، اس زوال کی پہلی اینٹ ہمارے ارباب اختیار نے کل رکھنے کی کوشش کی۔ یہ اینٹ کیوں رکھی گئی ہے، اس کے عالمی محرکات کیا ہیں، کل اس پر بات ہوگی۔