جنوبی پنجاب حالیہ شدید بارشوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور لاکھوں ایکڑ رقبہ رود کوہیوں کے سیلاب کی وجہ سے پانی میںزیر آب آچکا ہے۔ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں اِس وقت زندگی بڑی مشکلات کا شکارہے۔ راجن پور اور فاضل پور سیلابی پانی میں ڈوب چکے ہیں جبکہ ڈیرہ غازی خان کے شمال میں واقع تونسہ کے تمام مضافاتی علاقے سیلابی پانی کی زد میں آکر تباہ ہو چکے ہیں اس طرح جنوبی طرف بھی سیلاب کی تباہی جاری ہے۔ حکومت مشینری اِس کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ مخیر حضرات بھی آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کی تاریخ میں ایسا ہولناک سیلاب آج تک نہیں آیا۔ اِس سیلاب نے تو بڑی بڑی بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے اور اُن کو ایسا بنا دیا ہے کہ جیسے یہ بستیاں کبھی انسانوں کا مسکن ہی نہیں تھیں اور جیسے یہاں کوئی آیا ہی نہیں تھا۔ انسان کی سوچ اور ارادے نہ جانے کیا کچھ ہوتے ہیں اور مالک تقدیر پل بھر میں کیا سے کیا کچھ نہیں کر دیتا ۔ تونسہ شریف جو حضرت خواجہ سلیمان تونسوی ؒکا شہر ہے اُن کی آمد سے پہلے یہاں ریت اور مٹی کے ٹیلے ہوا کرتے تھے ۔ اور لوگ اِس کو تا س یعنی پیاسی کے نام سے پکارا کرتے تھے بعد میں یہ تونسہ بنا جبکہ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ یہاں پر حضرت سلیمان تونسوی ؒ آئے تھے اور یہاں پر اُن کے مور بھی تھے جس کو تاس کہاجاتا ہے جس کی وجہ سے یہ سر زمین تونسہ مشہور ہو گئی آج یہ تونسہ ہر طرف سے پانی میں گھیر چکا ہے ہزاروں مکانات تباہ اور لوگوں کا اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے ہر طرف تباہی اور بربادی کی کہانیاں نظر آتیں ہیں ۔ انسان قدرت کے سامنے مکمل طور پر بے بس ہے اِس کے دعوئے تو بہت ہوتے ہیں لیکن دراصل انسان کچھ بھی نہیں ہے۔ ا للہ تعالیٰ نے اِس کومٹی سے تخلیق کر کے اِس میں آگ اور پانی کے عنصر کو بھی شامل کر دیا اور پھر اِس کے جسد خاکی میں روح پھونک دی اور بس یہی اِس کی اوقات ہے ۔ کہ جونہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے روح اِس کے بدن سے نکال لی جاتی ہے تو پھر یہ مردہ بن کر دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے جو اِس خاک کو لے کر خاک کی تہیہ میں رکھ دیتے ہیں یہ ہماری اوقات لیکن اربوں اور کروڑوں کمانے اور جمع کرنے کی ہوس نے ہمیں درندوں سے بھی بد تر کر دیتی ہے۔ یہاں تک ہم اپنے بھائیوں کے بھی دشمن بن چکے ہیں غفلت اور ہوس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ سیلاب کی تباہی آنے سے قبل ڈیرہ غازی خان ، تونسہ ، منگروٹھہ ، بستی جلو والی ، سوکڑ وغیرہ میں بھی زندگی اپنے پورے جو بن پر تھی اِن لوگوں کی کپاس ، چاول ، گنا وغیرہ کی فصلیں عروج پر تھیں اور اِسی سال یہ ڈبل کمانے کی آس میں مگن تھے کہ قدرت نے اِن کا سب کچھ چھین لیا اور ایک لمحے میں کروڑ پتی لوگوں کو لکھ پتی بنا دیا اِس تباہی میں ہماری بھی بد عادات شامل ہیں یہ صرف ہمارے وسیب کی بات نہیں۔ بلکہ ہمارے پورے ملک کا المیہ ہے کہ ہمارے کسانوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا ہوا ہے اور اُس کی حدود کو کب سے توڑ رہے ہیں ۔ یہ زمین پر فساد ، تباہی اور فتنہ یہ سب کچھ ہمارے اپنے اعمال بد کی وجہ سے رونما ہو رہا ہے سینکڑوں ایکڑ زمینوں کے مالک بڑے بڑے جاگیردار اور سرداروں نے کیا کبھی اپنی فصلوں کا عشرہ بھی ادا کیا ہے ؟ ہرگز ادا نہیں کرتے بلکہ وہ تو عشر اور زکوٰۃ صاحب حیثیت لوگوں پر فرض ہے لیکن زیادہ سے ز یادہ مال جمع کرنے کی حرص نے ہمیں تباہ کر دیااس لیے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کلام میں ہم انسانوں کو خبردار کر کے فرمایا کہ زیادہ جمع کرنے کی حرص نے تم کو غفلت میں ڈال دیا ۔ یہاں تک تم قبروں میں جا پڑئے اللہ تعالیٰ چونکہ انسان کی فطرت کو سب سے زیادہ جانتا ہے ۔ اس لیے قرآن پاک میں بار بار انسان کو خبردار کرتا ہے کہ یہ کام مت کرو یہ مت کرو اِس سے روک جاؤ لیکن ہم ہیں کہ شیطان کی پیروی کیے جا رہے ہیں آج جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے سیلاب کی تباہی سے بچا لیا ہے ۔ تو یہ اُن کے لیے وارننگ ہے کہ وہ ابھی سے عشر اور زکوٰۃ ادا کرنے کی پکی نیت کر لیں۔ وگرنہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہم نے مول لی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے فصلوں کا عشر ادا کرنا بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی غریب رشتہ داروں اور بے آسرا لوگوں کے لیے رکھا ہے۔ کسی اور مخلوق کے لیے تو نہیں لیکن ہم انکاری ہیں اس لیے تو تباہی آرہی ہے ۔لیکن ہم ضد میں ہیں آج یہ موقع ملا ہے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے ا پنے تمام گناہوں کی معافی طلب کریں اور اُس کے احکامات کی مکمل پیروی کرنا شروع کر دیں یہ تمام مشکلات ختم ہو جائیں گی ۔ ابھی تو دریائے سندھ میں سات لاکھ کیوسک پانی آیا ہے اگر اِس سے زیادہ ہو گیا تو پھر دریائی سیلاب آنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے ۔ میرے مالک ہم کمزور اور ناتواں ہیں۔ میرا سارا وسیب اجڑ چکا ہے تو ہم پر رحم کر اور اب ہمیں دریائی سیلاب سے محفوظ رکھ (آمین ) انسان کی یہ خام خیالی ہے کہ میں بڑے مضبوط پتھروں کے بند بنا کر پانی کی آفت سے بچ سکتا ہوں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے۔ ڈیرہ غازی خان کے ساتھ سمینہ کے مقام پر حیدر والہ بند جو کچھ عرصہ قبل بڑے بڑے پتھروں سے بنایا گیا تھا لیکن دریائے سندھ کی طوفانی لہر اُسے دس منٹ میں بہا کر لے گئیں ۔ افسوس کہ جو تباہی ڈیرہ غازی خان ، تونسہ ، فاضل پور اور راجن پور میں آئی ہے اُس کا مداو ابھی تک نہیں ہو سکا حکومت نے ابھی اِن بے آسرا لوگوں کی خاطر بہت کچھ کرنا ہے لیکن حکومت اِس طرف توجہ نہیں دے رہی لوگ فریادیں کر رہے ہیں اور وہ کر بھی کیا سکتے ہیں ۔ اگر حکمرانوں کو اقتدار بچانے سے فرصت ہو تو کچھ اِدھر بھی توجہ کر لیں ۔ ٭٭٭٭٭