صرف ایک انسان کی برپا کی گئی تحریک لاتعداد حکومتوں کو قائل کر سکتی ہے کہ وہ اپنے اوپر جو قرضوں کا بوجھ ہے اس کا تفصیلی جائزہ لیں‘ ایک ایک قرضے کی غرض و غایت اور نوعیت معلوم کریں اور اس قرضوں کے آڈٹ کے بعد اگر وہ محسوس کریں اور شواہد کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچیں کہ ان میں اتنے فیصد قرضہ ناجائز ہے۔ یعنی کسی حکمران کی خوشنودی‘ کسی رشوت زدہ پراجیکٹ کی تکمیل یا کسی ایسے معاہدے کے نتیجے میں لیا گیا جو اپنی ہئیت کے اعتبار سے عوامی مفاد کے خلاف ہے تو وہ اسے غیر اخلاقی illegitimateقرار دے کر اس کی ادائیگی سے انکار کر دیں۔ بینکار روتے پیٹتے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جائیں تو ان کے دفاتر اپنے ملکوں سے اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ کون ہے یہ شخص اور کس نے ایسی جاندار تحریک برپا کی جس کی خبر کوئی بھی ان ملکوں کو نہیں ہونے دیتا جو قرضوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہوں۔ یہ شخص ایرک ٹو سانت (Erictossaint)‘1954ء میں بلجیم کے ایک ایسے گائوں میں پیدا ہوا جس کی آبادی صرف 2500تھی لیکن اس میں 30مختلف اقوام کے لوگ شامل تھے۔ یہ کان کنوں کا ایک گائوں تھا اور کان کنی کے لیے ہمیشہ دور دراز سے کاریگروں کو لایا جاتا ہے تاکہ وہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کوئی تحریک شروع نہ کر دیں۔ ایرک کے والدین استاد تھے اور وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلتا ہوا ایک استاد بن گیا۔ وہ میٹرک کے بچوں کو تاریخ اور معاشرتی علوم پڑھایا کرتا تھا۔ اس کا بحیثیت استاد زمانہ 1975ء سے 1994ء تک تقریباً بیس سالوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اسی دوران جب وہ ایک شہر ’’لیگ‘‘ Liggeمیں پڑھا رہا تھا جس کی آبادی تقریباً دو لاکھ کے قریب تھی تو اس دوران اس شہر کی میونسپلٹی قرضوں کے بحران کا شکار ہو گئی تھی اور اس نے بہت سے اخراجات میں کمی کر دی تھی۔ یہ 1982ء کا زمانہ تھا جب میکسیکو نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا تھااور لاطینی امریکہ کے دیگر ممالک میں بھی ان قرضوں کی ادائیگی سے انکار کی تحریک چل رہی تھی‘ جو بلاوجہ ان پر لاد دیئے گئے تھے۔ اسی زمانے میں جنوبی افریقہ کے چھوٹے سے ملک’’برکنابے‘‘(Burkinabe)کے صدر تھامس سنکارا(Thames san kara)نے اپنے ملک پر قرضوں کے بوجھ کو اتارنے کے لیے دنیا کو ان سود خور بنکاروں کی چالبازیوں سے آگاہ کرنا شروع کیا تھا۔ ایرک اور اس کے چند ساتھیوں نے افریقہ اور جنوبی امریکہ کے ممالک میں بلند ہونے والی ان آوازوں سے متاثر ہو کر اپنے ہی شہر کی میونسپلٹی کے قرضوں کا مطالعہ کرنا شروع کیا اور وہ اس بھیانک انکشاف سے آگاہ ہوئے کہ بینکار کیسے گھیر گھار کر اداروں‘ شہری اور قومی حکومتوں کو قرضوں کے ایسے جال میں پھنساتے ہیں جن سے نکلنا ناممکن سا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے 1990ء میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام تھا''Committee for the ablution of illegimate debt یعنی غیر اخلاقی قرضوں کے خاتمے کی کمیٹی۔ اس کمیٹی میں ہر طبقہ فکر کے لوگ موجود تھے۔ آغاز میں یہ کمیٹی صرف بلجیم تک محدود رہی لیکن چونکہ اس کا لٹریچر فرانسیسی اور ہسپانوی زبان میں چھپا تھا۔ اس لئے یہ ان قوموں اور ملکوں میں مقبول ہونے لگی جو فرانس اور سپین کی محکوم رہی تھیں آج یہ کمیٹی تیس ممالک میں موجود ہے۔ اس تحریک سے صرف ایک سال قبل یعنی 1989ء میں فرانس کی بہت سی سیاسی اور ادبی شخصیات نے دنیا کے غریب ممالک کو قرضوں کی اس لعنت سے نجات کے لیے ایک اتحاد بنایا جس کا نام تھاCa suffat Commeeiکا سوفی کموٹسیائی۔ جب انقلاب فرانس کا دو صد سالہ جشن منایا جا رہا تھا تو فرانس کے صدر متراں نے دنیا کے امیر ممالک یعنی G7کا اجلاس وہاں طلب کیا۔ اس تنظیم کے لوگوں نے اسے غریب ممالک کا تمسخر اڑانے کے مترادف اور ردانقلاب سمجھا اور اس اجلاس کے خلاف مظاہرے کئے گئے جن میں لاکھوں لوگوں نے گرم جوشی سے حصہ لیا۔ یہ تحریک سب سے پہلے ان ممالک میں مقبول ہوئی جو غریب ممالک کو قرضہ دے کر ان سے سود کی قسطیں وصول کر کے اپنی معیشت کو خوشحال کرتے تھے۔ لیکن یہاں یہ صرف مضمون لکھ سکتے تھے‘ جلوس نکال سکتے تھے۔ مظاہرہ کر سکتے تھے۔ اس کا معاملہ تو یہ تھا کہ ان غریب ممالک کو کیسے قائل کیا جائے کہ تم پر جو قرضوں کا بوجھ ہے وہ ناجائز ہے اس سے انکار کر دو۔ 1994ء میں جب سپین کے شہر میڈرڈ میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی تھی تو ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا لیکن یہ کافی نہ تھا۔ تنظیم نے ان ملکوں میں عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کی ٹھانی جو مقروض تھے۔ اس ضمن میں جب میکسیکو میں قرض نہ ادا کرنے کی مشہور تحریک Neo-Zapatistaکا آغاز ہوا تو ایرک اور اس کے ساتھی میکسیکو گئے اور انہوں نے ان کے ساتھ مل کر تحریک چلائی۔ لیکن سب سے اہم کام یہ تھا کہ قرضوں کا آڈٹ کیسے کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے ضروری بات یہ تھی کہ قرضوں کے متعلق تمام دستاویزات جو بنکوں اور بہت سی حکومتوں کے دفاتر میں موجود ہیں انہیں ایک جگہ اکٹھا کیا جائے اس دوران روانڈا میں حکومت بدل گئی جو گزشتہ قرضوں کا آڈٹ کرنے پر راضی ہو گئی لیکن تمام قرضہ دینے والے ممالک نے راتوں رات ایک آپریشن کیا جسے Opration Tunquosieکہتے ہیں۔ انہوں نے روانڈا کے سنٹرل بنک سے تمام دستاویزات ایک کنٹینر میں لادیں اور ملک سے باہر لے گئے تاکہ نئی حکومت کو بالکل علم نہ ہو سکے کہ قرض کیسے لئے گئے اور کیوں لئے گئے۔ لیکن ارجنٹائن وہ ملک تھا جس نے قرض آڈٹ اور اس کے بعد ادائیگی سے انکار کا پہلا پتھر اس خاموش جھیل میں پھینکا اور طوفان برپا ہو گیا۔ ارجنٹائن کی سپریم کورٹ نے ایک بہت بڑی تحریک کے نتیجے میں دو ججوں کو مقرر کیا کہ 1976ء سے 1982ء تک کے تمام قرضوں کا آڈٹ کریں۔ ایرک بلجیم سے فوراً ارجنٹائن جا پہنچا اور اس آڈٹ میں مدد دینے لگا ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا دبائو تھا۔ لیکن عدالت نے 195صفحات کا فیصلہ دے ڈالا۔ اس قرضے کا اصل نکتہ یہ تھا کہ 1976ء سے 2001ء تک ارجنٹائن پر 160ارب ڈالر قرضہ تھا لیکن اس عرصہ میں ارجنٹائن 200ارب ڈالر کی قسطیں ادا کر چکا تھا۔ یہ صرف ایک نکتہ اس استحصالی سودی نظام کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی تھا۔ ارجنٹائن نے قرض ادا کرنے سے انکار کیا تو پھر ایکواڈور میدان میں آ گیا۔ بولیویا نے انکار کیا۔ پیراٹوائے نے کہا ہم ایسا قرضہ ادا نہیں کر سکتے جو حکمرانوں کی عیاشیوں اور اللوں تللوں کے لئے دیا گیا۔ آئس لینڈ کے بنک ڈوبنے لگے تو اس نے انہیں ڈوبنے دیا کہ انہی کی وجہ سے تو ہم پر تباہی آئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس سودی نظام میں عوام لٹ جاتے ہیں حکومتیں مقروض ہو جاتی ہیں لیکن بنک ڈوبنے لگیں تو ان کو عوام کے ٹیکسوں سے بیل آئوٹ پیکیج دیا جاتا ہے۔ انہیں عوام کے پیسوں سے دوبارہ لاکھڑا کیا جاتا ہے۔ کیا ہمارے ہاں کوئی ایک تحریک جنم لے سکتی ہے ایسی ہی ایک تحریک‘ غیر اخلاقی قرضوں سے انکار کی تحریک۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ایوب خان کے وزیر خزانہ شعیب سے لے کر اسحق ڈار اور اسد عمر تک سب ہمیں اس غلامی سے نجات نہیں دلا سکتے۔