پوری دنیا میں عید الاضحٰی روایتی جوش و جذبے کے ساتھ منائی گئی،اس مرتبہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے عید نماز اور قربانی کیلئے گائیڈ لائنز جاری کی تھیں اور کہا تھا کہ عید نماز مکمل ایس او پیز کے ساتھ کھلی جگہ اور میدان میں ادا کی جائے، عید نماز مسجد میں ادا کرنی پڑے تو کھڑکیاں اور دروازے کھلے رکھیں،بچے بوڑھے اور بیمار افراد گھر پر رہیں،ماسک کے بغیر کوئی شخص عید گاہ میں داخل نہ ہو،جانوروں کی قربانی کے موقع پر ماحول کو صاف ستھرا رکھا جائے اور ہر طرح کی آلودگی سے بچایا جائے،یہ ہدایات تھیں مگر معذرت کے ساتھ ان ہدایات پر عمل نہیں ہوا،شہروں کی بات اپنی جگہ رہی،میں نے عید نماز دھریجہ نگر میں ادا کی،مجھے کوئی بھی شخص ماسک کے ساتھ عید گاہ میں نظر نہیں آیا۔ذکر چلا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ وسیب کے سیاستدانوں کی اکثریت نے لاہور میں نماز ادا کی۔ وسیب کی فضا سوگوار تھی،ڈیرہ غازی خان بس حادثے کی وجہ سے پورے وسیب میں سرائیکی جماعتوں کی طرف تین یوم کے سوگ کا اعلان کیا گیا تھا،حادثے میں شہید ہونیوالوں کی میتیں انکے گھروں تک پہنچیں تو رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ایک گھر کے چار بھائی حادثے کا شکار ہوئے،تین فوت ہوگئے اور ایک کی حالت تشویشناک ہے،حاجی پور کے نوجوان کی اس عید کے بعد شادی تھی ،جائے حادثہ پر بھی قیامت صغریٰ ابھی تک بپا ہے،بکھرے ملبے سے چوڑیاں، کھلونے دیکھ کر دل دہل جاتا ہے،یہ وہ اشیاء ہیں جو حادثے کا شکار ہونیوالے غریب مزدور اپنے بچوں کیلئے لے جارہے تھے،وزیراعظم عمران خان نے اپنے پیغام میں لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیراعظم وسیب کی ترقی کیلئے اقدام کریں،روزگار کے مواقع مہیا کریں اور اپنے وعدے کے مطابق صوبے کیلئے اقدامات کریں تاکہ وسیب کے لوگوں کو اپنے گھر پر روزگار مل سکے۔ دنیا کے بعض ممالک میں قربانی کی عید منگل اور بعض میں بدھ کو منائی گئی،افریقہ اور مشرق بعید کے ممالک ملائشیا، انڈونیشیا، بورنائی، دارالاسلام، وسطی ایشیا،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک اور ترکی میں بھی منگل کے روز عید منائی گئی جبکہ پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں بدھ کو عید ہوئی،عید کا سب سے بڑا اجتماع مکہ مکرمہ میں ہوا،حاجیوں سمیت لاکھوں فرزندان توحید نے نماز عید ادا کی۔اس مرتبہ ہر جگہ جانور بہت مہنگے تھے،عید کے موقع پر بھی لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ عید سے ایک دن پہلے بازاروں میں خریداروں کا بہت رش رہا،رات کے وقت مارکیٹوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، گارمنٹس، جوتوں،کپڑوں مصنوعی جیولری، میک اپ اور دیگر اشیاء کی مانگ اور مہنگائی میں زبردست اضافہ دیکھنے کو ملا، پنجاب حکومت کی طرف سے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات شائع کرائے گئے جس میں 85کا لعدم تنظیموں و ذیلی اداروں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ کالعدم تنظیمیں ہیں انکو کھالیں نہ دی جائیں مگر یہ پابندی کاغذی ثابت ہوئی،سب کھالیں وصول کرتے ہیں صرف تنظیموں کے بدل جاتے ہیں،چہرے وہی ہوتے ہیں،کئی سالوں سے کھالوں کی قیمتیں کم ہیں ورنہ کراچی میں کھالیں جمع کرنے والوں کے درمیاںمن جنگیں ہوتی رہی ہیں، وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے اپنے پیغام میں کہا کہ ایس او پیز کا مکمل خیال رکھا جائے اور عید کے موقع پر نادار و بے سہارا افراد کو عید کی خوشیوں میں شریک کریں۔ عید قربان کی خاص بات یہ تھی کہ سعودی حکام نے مسجد نمرہ سے حج کے خطبے کا ترجمہ براہ راست 10زبانوں میں پیش کیا ،10کروڑ سے زائد مسلمانوں نے یہ خطبہ سنا،یہ خطبہ ترجمہ کے ساتھ نشر ہوا۔ ان میں انگریزی، فرانسیسی، روسی، چینی، بنگالی، اردو ،فارسی، ترکی، ملائی اور ہوسا زبانیں شامل تھی، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس میں دیگر زبانیں بھی شامل کی جائیں،خطبہ ایک پیغام ہے یہ پیغام زیادہ سے زیادہ اہلِ اسلام اور غیر مسلموں تک پہنچنا چاہئیے۔ عید کا پیغام ایثار و قربانی کے جذبے کا نام ہے،ذاتی خواہشات کو دوسروں کی ضروریات پر قربان کر دینا اصل عید ہے،عید پر ضرورت مندوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کو انکے گھروں تک گوشت پہنچانا ضروری ہوتا ہے مگر زیادہ تر لوگوں نے اپنے ڈیپ فریزر بھرے جس سے قربانی کا مقصد پورا نہیں ہوا، وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید نے تین اونٹ قربان کئے حالانکہ ایک بکرے سے قربانی کا فریضہ ادا ہوسکتا تھا اور باقی رقم سے غریبوں مسکینوں کی مدد کی جا سکتی تھی،ایک قربانی فرض ہے،قرآن اور حدیث کی روشنی میں وہ ضرور ہونی چاہئیے اور اضافی قربانیوں سے غریبوں اور مسکینوں کی مدد کی جانی چاہئیے،ان حالات میں قربانی کے فلسفے کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ یہ تسلیم و رضا کی لازوال داستان ہے۔میاں نواز شریف نے لندن میں عید ادا کی،ایسی دولت کا کیا فائدہ کہ گھر پر عید بھی نصیب نہیں۔